1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

روس نے بیلگورود میں بھی ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر دیا

14 اگست 2024

یوکرینی فوج کے حملوں کے بعد سے اب تک روس کے دو علاقوں کی مقامی انتظامیہ ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر چکی ہیں۔ کییف کی جانب سے کروسک کے 74 قصبوں اور دیہات کا کنٹرول سنبھالنے کے اعلان بھی کیا گیا ہے۔

یوکرین کے حملوں کے نتیجے میں کرسک اور بیلگورود سے ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے
یوکرین کے حملوں کے نتیجے میں کرسک اور بیلگورود سے ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہےتصویر: Str/REUTERS

روس پر یوکرینی فوجی حملے کے دوران اب مزید ایک اور علاقے کی انتظامیہ نے ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے۔ روس میں بیلگورود کے علاقائی گورنر ویاچسلاو گلاڈکوف نے میسجنگ ایپ ٹیلی گرام پر لکھا، ''یوکرین کی مسلح افواج کی گولہ باری کی وجہ سے بیلگورود کے علاقے میں حالات انتہائی مشکل اور کشیدہ ہیں۔ مکانات تباہ، شہری ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید لکھا، ''علاقائی سطح پر ہنگامی حالت متعارف کرائی جائے گی، جس کے بعد حکومتی کمیشن سے وفاقی ہنگامی حالت کا اعلان کرنے کی درخواست کی جائے گی۔‘‘

 گزشتہ ہفتے یوکرین کے ساتھ سرحد پر واقع روسی علاقے کروسک میں بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد کے سب سے بڑے زمینی حملے کی وجہ سے ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا گیا تھا۔ گلاڈکوف کا کہنا تھا کہ منگل کو یوکرینی افواج کی طرف سے دو مزید روسی بستیوں پر حملہ کیا گیا۔

یوکرینی صدر کا کہنا ہے کہ ان کے فوجیوں کی روس کے اندر پیش قدمی جاری ہےتصویر: Roman Pilipey/AFP/Getty Images

 کروسک  پر حملہ کریملن کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے، جو بائیڈن

کییف حکومت کی جانب سے کروسک کے 74 قصبوں اور دیہات کا کنٹرول سنبھالنے کے اعلان کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے لیے ایک ''حقیقی مخمصہ‘‘ ہے۔ یوکرین نے آج بدھ 14 اگست کو کروسک کو مزید ڈرون حملوں اور میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ مغربی طاقتوں نے حال ہی میں یوکرین کی افواج کو روسی سرزمین کے اندر اپنے ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دینے کے بارے میں اپنا ذہن بدلا، اور انہیں کروسک میں مزید آگے بڑھنے کی اجازت دی ہے۔

یوکرینی فوج کے سربراہ الیکسانڈر سیرسکی نے منگل کی رات دیر گئے کہا کہ گزشتہ روز ''40 مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے کا کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے۔‘‘

کیف نے اس حملے  سے متعلق زیادہ وضاحت نہیں کی ہے سوائے یہ کہنے کے کہ اس کا مقصد روسی علاقے کو مستقل طور پر کنٹرول کرنا نہیں ہے۔ کریملن کا خیال ہے کہ یوکرین ممکنہ جنگ بندی معاہدے کے دوران فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، جب کہ واشنگٹن میں حکام نے قیاس کیا ہے کہ یوکرین کے صدر وولادیمیر زیلنسکی کریملن کو یوکرین سے فوجیں نکالنے اور کروسک منتقل کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کروسک میں یوکرینی پیش قدمی روک دی ہے، روس

اسی دوران روسی حکام  نے کہا ہے کہ یوکرینی افواج کی طرف سے کروسک کے پانچ مزید علاقوں میں مداخلت کی کوششوں کو پسپا کر دیا  گیا۔ روسی وزارت دفاع کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت پر جاری کیا گیا ہے، جب یوکرینی صدر وولادیمیر زیلنسکی نے بدھ کے روز کہا ہے کہ  ان کی افواج پیش قدمی کر رہی ہیں۔  روسی وزارت دفاع کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا، ''دشمن کے موبائل یونٹس کی طرف سے بکتر بند آلات کا استعمال کرتے ہوئے روسی علاقے میں مزید اندر تک داخل ہونے کی کوششوں کو پسپا کر دیا گیا ہے۔‘‘

روسی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیوز میں روسی افواج کو یوکرینی اہداف کو نشانہ بناتے دکھایا گیا ہےتصویر: Russian Ministry of Defense/Anadolu/picture alliance

کروسک نیوکلیئر پلانٹ کی سکیورٹی میں اضافہ

روس کے نیشنل گارڈ نے یوکرین کے ڈرون حملوں سے لاحق خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے کروسک نیوکلیئر پاور پلانٹ کے ارد گرد اپنی موجودگی بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ کروسک پلانٹ روس میں بجلی پیدا کرنے والے چار بڑے پاور پلانٹس میں سے ایک ہے۔ یہ کروسک اور انیس دیگر علاقوں میں کو بجلی فراہم کرتا ہے۔کروسک نیوکلیئر پاور پلانٹ دو فعال اور دو منقطع ری ایکٹروں پر مشتمل  ہے۔

فروری 2022 میں یوکرین کے خلاف روسی جنگ شروع ہونے کے بعد سے سرحد کے دونوں جانب لڑائی کے جوہری ری ایکٹرز کے بہت قریب آنے کے خدشات ہیں۔

یوکرین پر روس کے ابتدائی حملے کے کچھ ہی عرصے بعد زاپوریژیا نیوکلیئر پاور پلانٹ کے ارد گرد شدید لڑائی ہوئی تھی۔ یورپ کے اس سب سے بڑے ایٹمی پاور سٹیشن کے اردگرد لڑائی نے ایٹمی تابکاری کے پھیلاؤ کے خدشات کو جنم دیا تھا۔ اس پلانٹ کے ارد گرد پچھلے دو سالوں میں مختلف مقامات پر لڑائی ہوتے دیکھی گئی ہے۔

ش ر⁄ ا ب ا (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں