روس نے نیا بین البراعظمی ہائپر سونک میزائل تیار کر لیا
28 دسمبر 2019
روس نے اپنی طرز کا ایسا پہلا بین البراعظمی ہائپر سونک میزائل تیار کر لیا ہے، جو آواز کی رفتار سے بھی ستائیس گنا تیز رفتاری سے اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ صدر پوٹن کے مطابق یہ غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل میزائل ہے۔
تصویر: Reuters/Sputnik
اشتہار
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مطابق اس نئے میزائل کے تجرباتی مرحلے کے دوران یہ ثابت ہو گیا کہ ماسکو کا یہ جدید ترین ہتھیار اب تک دستیاب سبھی میزائل دفاعی نظاموں کو قطعی طور پر غیر مؤثر بنا دے گا۔ اس بارے میں روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگُو نے صدر پوٹن کو بتایا کہ یہ بین البراعظمی میزائل ایک ایسا ہائپر سونک ہتھیار ہے، جو جمعہ ستائیس دسمبر سے باقاعدہ طور پر 'آپریشنل‘ ہو گیا ہے۔
روسی وزارت دفاع کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق سیرگئی شوئیگُو نے صدر پوٹن کو بتایا کہ آواز کی رفتار سے بھی 27 گنا زیادہ تیز رفتاری سے سفر کرنے والے اس میزائل کی تیاری پر ماسکو کی طرف سے گزشتہ کئی برسوں سے جاری تجرباتی کام اب مکمل ہو گیا ہے اور اب یہ میزائل کہیں بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔
روسی حکام کے مطابق اس میزائل نے اپنے طویل تجرباتی مراحل کے دوران کئی مرتبہ 33 ہزار کلومیٹر (ساڑھے 20 ہزار میل) فی گھنٹہ تک کی رفتار سے سفر کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نیا روسی میزائل آواز کی رفتار سے تقریباﹰ 27 گنا زیادہ تیز رفتاری سے سفر کر سکتا ہے۔ آواز 1,234.8 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔
تصویر: Reuters/Sputnik
ہائپر سونک میزائل کیا ہوتا ہے؟
ماہرین کے مطابق اس میزائل کے ذریعے روسی حکام نے اپنے ملک کے کسی ہتھیار کے انتہائی تیز رفتار ہونے کا بظاہر ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے، تاہم اس سے کم رفتار میزائل تو پہلے ہی سے روس اور امریکا کے پاس موجود ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ آواز ایک گھنٹے میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے، اسے ایک 'ماخ‘ کہا جاتا ہے۔
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Dufour
7 تصاویر1 | 7
کوئی سپر سونک ہوائی جہاز یا میزائل آواز کی رفتار سے جتنے گنا زیادہ تیز رفتاری سے سفر کرتا ہے، اس کے لیے ماخ کے آگے وہی عدد لکھ دیا جاتا ہے۔ مثلاﹰ آواز کی رفتار سے چار گنا زیادہ کا مطلب ہوا Mach 4۔ کوئی بھی ہائپر سونک ہوائی جہاز یا میزائل اس وقت ہائپر سونک کہلاتا ہے، جب اس کی رفتار 'ماخ پانچ‘ سے زیادہ ہو۔
ایسے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل تو روس اور امریکا کے پاس پہلے سے موجود ہیں، جو ہائپر سونک ہیں اور 20 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے سفر کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ بظاہر پہلا موقع ہے کہ روس نے کوئی ایسا بین البراعظمی میزائل تیار کیا ہے، جو 'ماخ 27‘ تک کی رفتار سے سفر کرتا ہوا اپنے ہدف تک پہنچ سکتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں 33 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے کسی بھی دوسرے براعظم میں اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکنے والا یہ میزائل واقعی اپنی طرز کا انتہائی جدید ترین اور منفرد ہتھیار ہے۔
ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت بڑی پیش رفت، پوٹن
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے روسی صدر پوٹن کے اسی ہفتے اعلیٰ فوجی اہلکاروں سے ایک ملاقات میں دیے جانے والے اس بیان کا حوالہ دیا ہے کہ روس اب مغربی دنیا کے ساتھ نئے ہتھیاروں کی تیاری کے شعبے میں کوئی ایسا کھیل نہیں کھیل رہا، جس میں ماسکو کو دوڑ کر خود کو مغربی دنیا کے ہم پلہ بنانے کی کوشش کرنا ہو۔
دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘کی تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2002 کے مقابلے میں سن 2018 میں ہتھیاروں کی صنعت میں 47 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب نے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
1۔ سعودی عرب
سعودی عرب نے سب سے زیادہ عسکری ساز و سامان خرید کر بھارت سے اس حوالے سے پہلی پوزیشن چھین لی۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فروخت ہونے والا 12 فیصد اسلحہ سعودی عرب نے خریدا۔ 68 فیصد سعودی اسلحہ امریکا سے خریدا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/ H. Jamali
2۔ بھارت
عالمی سطح پر فروخت کردہ اسلحے کا 9.5 فیصد بھارت نے خریدا اور یوں اس فہرست میں وہ دوسرے نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق بھارت اس دوران اپنا 58 فیصد اسلحہ روس، 15 فیصد اسرائیل اور 12 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa
3۔ مصر
مصر حالیہ برسوں میں پہلی مرتبہ اسلحہ خریدنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہوا۔ مصر کی جانب سے سن 2014 اور 2018ء کے درمیان خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔ اس سے پہلے کے پانچ برسوں میں یہ شرح محض 1.8 فیصد تھی۔ مصر نے اپنا 37 فیصد اسلحہ فرانس سے خریدا۔
تصویر: Reuters/Amir Cohen
4۔ آسٹریلیا
مذکورہ عرصے میں اس مرتبہ فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر چوتھا رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 4.6 فیصد رہی۔ آسٹریلیا نے 60 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 4.4 فیصد بنتے ہیں۔ اس عرصے میں الجزائر نے ان ہتھیاروں کی اکثریت روس سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ سن 2014 اور 2018ء کے درمیان چین اسلحہ برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک بھی رہا۔ کُل عالمی تجارت میں سے 4.2 فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
7۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق مذکورہ عرصے کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.7 فیصد اسلحہ خریدا جس میں سے 64 فیصد امریکی اسلحہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور بھاری اسلحے کی خریداری میں عراق کا حصہ 3.7 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ جنوبی کوریا
سپری کی تازہ فہرست میں جنوبی کوریا سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا دنیا کا نواں بڑا ملک رہا۔ اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.1 فیصد اسلحہ جنوبی کوریا نے خریدا۔ پانچ برسوں کے دوران 47 فیصد امریکی اور 39 فیصد جرمن اسلحہ خریدا گیا۔
تصویر: Reuters/U.S. Department of Defense/Missile Defense Agency
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے 2.9 فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
پاکستان گزشتہ درجہ بندی میں عالمی سطح پر فروخت کردہ 3.2 فیصد اسلحہ خرید کر نویں نمبر پر تھا۔ تاہم تازہ درجہ بندی میں پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 2.7 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے اپنے لیے 70 فیصد اسلحہ چین، 8.9 فیصد امریکا اور 6 فیصد اسلحہ روس سے خریدا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
صدر پوٹن کے مطابق، ''آج ہم اپنی جدید تاریخ میں ایک ایسے مقام پر ہیں کہ اب ان (مغربی دنیا) کو دوڑ کر ہم تک پہنچنے کی کوشش کرنا ہو گی۔ اس نئے میزائل کی تیاری ٹیکنالوجی کے شعبے میں روس کی ایسی بڑی چھلانگ ہے، جس کا موازنہ 1957ء کے اس واقعے سے کیا جا سکتا ہے، جب (ماضی کی ریاست) سوویت یونین نے اپنا پہلا سیٹلائٹ خلا میں چھوڑا تھا۔‘‘
امریکا بھی نئی دفاعی حکومت عملی کی کوشش میں
نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ روس اور چین کی طرف سے نئے ہائپر سونک ہتھیاروں کی تیاری کا جواب دینے کے لیے امریکا بھی اس وقت اپنے لیے نئی دفاعی حکمت عملی وضع کرنے پر غور کر رہا ہے۔ امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کہہ چکے ہیں کہ ملکی محکمہ دفاع یا پینٹاگون کی ترجیح اس وقت یہ ہے کہ وہ اپنے لیے نئے 'لانگ رینج فائر‘ کی صلاحیتوں کو یقینی بنائے۔
دریں اثناء روسی وزارت دفاع نے یہ بھی کہا ہے کہ اس نے اپنے اس جدید ترین میزائل سے متعلق امریکی ماہرین اور معائنہ کاروں کو گزشتہ ماہ نومبر میں ہی تفصیلی طور پر مطلع کر دیا تھا۔ ماسکو اور واشنگٹن کے مابین جوہری ہتھیاروں سے متعلق 'نیو سٹارٹ‘ معاہدے کے تحت روس کے لیے ایسا کرنا لازمی تھا۔ اسی معاہدے کے تحت اگر یہی کام روس کے بجائے امریکا کرتا، تو اس کے لیے بھی ماسکو کو تفصیلاﹰ مطلع کرنا لازمی ہوتا۔
م م / ا ا (اے پی، اے ایف پی)
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔