روس نے کبھی سیاسی تبدیلی کی بات نہیں کی، بشارالاسد
14 جولائی 2016این بی سی نیوز چینل کو ایک انٹرویو میں شامی صدر نے ترکی، قطر اور سعودی عرب پر دہشت گرد گروہوں کی امداد کرنے کا الزام عائد کیا اور اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ممالک القاعدہ جیسے گروہوں کی معاونت کر رہے ہیں۔ بشار الاسد نے کہا،’’روسی سیاست کی بنیاد معاہدے نہیں ہوتے بلکہ ماسکو اصول کی سیاست کرتا ہے جبکہ امریکا اپنی سیاست میں اقدار کو نظر اندز کرتے ہوئے سمجھوتے کرتا ہے۔‘‘
بشارالاسد نے مزید کہا کہ روس اور دمشق دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے ایک سوچ رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ شامی حکومت اور حزب اختلاف کے مابین مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ حزب اختلاف کی جانب سے بشارالاسد کو صدر کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ رہا ہے۔ اس حوالے سے روس کی پالیسی کبھی واضح نہیں ہوئی۔ امریکی نیوز چینل کو بشارالاسد نے بتایا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے شام کی مدد کرنے کے بدلے ان سے کبھی کچھ طلب نہیں کیا اور چین اور ایران بھی ان کی حکومت کی تائید کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں شامی صدر نے کہا کہ روسی مدد کے باعث آج شامی افواج دہشت گردوں کے مقابلے میں مضبوط ہیں اور انہیں شکست دے رہی ہیں انہوں نے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی فضائی حملوں کی مذمت کی اور انہیں غیر قانونی قرار دیا۔ اس حوالے سے شامی صدر نے کہا،’’ امریکی فضائی حملوں کے بعد سے شام میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ روس کی مداخلت سے دہشت گردانہ کارروائیوں میں کمی آئی ہے۔‘‘
بشار الاسد نے کہا کہ امریکا دہشت گردی کے خاتمے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ جنگ زدہ ملک کے صدر نے کہا کہ ان کی افواج سن 2012 میں امریکی صحافی میری کولون کی ہلاکت کی ذمہ دار نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ رواں ہفتے میری کولون کے خاندان نے شامی حکومت کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ اس انٹرویو کے دوان بشارالاسد نے کئی مرتبہ دہرایا کہ وہ تب تک اقتدار میں رہیں گے جب تک شام کے عوام یہ چاہیں گے۔
بشار الاسد کے خلاف مزاحمت کا آغاز سن 2000 اور سن 2001 کے درمیان شروع ہوا جب انہوں نے اپنے والد کی قیادت کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ عوام کے خلاف ریاست کے کریک ڈاؤن نے ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کر دی جس کے باعث اب تک ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور قریب 12 لاکھ شامی افراد ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔