روس نے یوکرائن میں حکومت بدلنے کا برطانوی الزام مسترد کر دیا
23 جنوری 2022
برطانیہ نے الزام عائد کیا ہے کہ روس یوکرائن میں اپنی پسند کی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ ادھر جرمن نیوی کے سربراہ یوکرائن سے متعلق اپنے ایک متنازعہ بیان پر مستعفی ہو گئے ہیں۔
اشتہار
برطانیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ روس یوکرائنی حکومت کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کریملن کی کوشش ہے کہ اس سابق سوویت ریاست میں ایک ایسی کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی جائے، جو ماسکو کی حامی ہو۔
روس نے یوکرائن سے متصل سرحدوں پر ہزاروں فوجیوں کے علاوہ بھاری اسلحہ اور ٹینک تعینات کیے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے نہ صرف یوکرائن بلکہ یورپ اور امریکا بھی روس کو خبردار کر چکے ہیں کہ کسی بھی عسکری کارروائی کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تاہم روس کا کہنا ہے کہ اس کا یوکرائن پر کسی نئے حملے کا کوئی ارادہ نہیں بلکہ وہ یورپ کی مشرقی سرحدوں پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی عسکری سرگرمیاں نہیں چاہتا۔ روس نے اس حوالے سے امریکا اور یورپ سے ضمانتیں مانگی ہیں، جس پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔
الزام ہے کیا؟
لندن حکومت کا کہنا ہے کہ اسے ایسے شواہد ملے ہیں کہ یوکرائن کے متعدد سیاستدانوں نے روسی خفیہ ایجنسیوں سے رابطے استوار کیے ہیں تاکہ انہیں نئے یوکرائنی رہنما کے طور پر منتخب کر لیا جائے۔
عوامیت پسند یورپی رہنما کیا روس کے ساتھ ہیں؟
سن 2014 میں یوکرائنی بحران کے باعث یورپی یونین امریکا کی طرف راغب ہوئی اور روس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یوں کئی اہم یورپی رہنما ماسکو حکومت سے دور ہو گئے تاہم عوامیت پسند یورپی سیاست دان روس کی طرف مائل ہوتے نظر آئے۔
تصویر: DW/S. Elkin
سٹراخا روس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حامی
آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Bader
’روس اور سفید فام دنیا‘، ژاں ماری لے پین
فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سیاسدتان ژاں ماری لے پین کو 2015ء میں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے کہا کہ فرانس کو روس کے ساتھ مل کر ’سفید فام دنیا‘ کو بچانا چاہیے۔ قبل ازیں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نازی جرمن دور کے گیس چیمبرز ’تاریخ کی ایک تفصیل‘ ہیں۔ ان اور ایسے ہی دیگر بیانات کی وجہ سے ان کی بیٹی مارین لے پین نے انہیں اپنی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ سے بے دخل کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/G. Fuentes
’روس کے اثر میں نہیں‘، مارین لے پین کا اصرار
فرانسیسی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں ’بالکل بیوقوفانہ‘ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کریمیا ہمیشہ سے ہی روس کا حصہ تھا‘۔ نیشنل فرنٹ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے روسی بینکوں سے قرضے لیے تاہم لے پین کے بقول روس کا ان پر یا ان کی پارٹی پر اثرورسوخ نہیں ہے۔ سن 2017ء میں انہوں نے کریملن میں روسی صدر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Klimentyev
متبادل برائے جرمنی کے روس کے ساتھ مبینہ تعلقات
مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی روسی پس منظر کے حامل ووٹرز میں قدرے مقبول ہے۔ اس پارٹی کی سابق رہنما فراؤکے پیٹری نے سن 2017ء میں روسی صدر کی سیاسی پارٹی کے قانون سازوں سے ماسکو میں ملاقات کی تھی۔ اے ایف ڈی روس پرعائد پابندیوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتی ہے۔ تاہم اس پارٹی کے رہنما ایلیس وائیڈل اور الیگزینڈر گاؤلینڈ کے بقول اے ایف ڈی پوٹن یا ان کی ’مطلق العنان حکومت‘ کی حمایت نہیں کرتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
وکٹور اوربان کے پوٹن کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کئی مرتبہ بوڈا پیسٹ میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کر چکے ہیں۔ دونوں رہنما اپنے طرز حکمرانی کے طریقہ کار میں کئی مماثلتیں رکھتے ہیں۔ اوربان کا کہنا کہ ہے یورپی سیاستدان خود کو اچھا دکھانے کی کی خاطر پوٹن کو ’برا‘ ثابت کرتے ہیں۔ تاہم سیرگئی اسکریپل پر کیمیائی حملے کے بعد روسی اور یورپی سفارتی بحران کے نتیجے میں ہنگری نے روسی سفارتکاروں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters/Laszlo Balogh
گیئرت ولڈرز کا دورہ روس اور تنقید
اسلام مخالف ڈچ سیاست دان گیئرت ولڈرز نے سن 2014ء میں پرواز MH-17 کے مار گرائے جانے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 2018ء میں ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی۔ تاہم روس کے ایک حالیہ دورے کے بعد ان کے موقف میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے اب کہا ہے کہ وہ نیٹو اور امریکا کے حامی ہیں لیکن مہاجرت کے بحران اور مسلم انتہا پسندی کے خلاف روس ایک اہم حلیف ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Dejong
اٹلی کے نئے نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی
اٹلی میں حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت میں عوامیت پسند سیاسی جماعت ’لیگ‘ اور فائیو اسٹار موومنٹ شامل ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں روس پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کو ’جارحانہ‘ اقدامات نہیں کرنا چاہییں۔ لیگ کے اعلیٰ رہنما ماتیو سالوینی ملک کے نئے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ’امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
7 تصاویر1 | 7
اطلاعات ہیں کہ روسی خفیہ ایجنسیان سابق ممبر پارلیمان یگفین مورایئف کو نئے لیڈر کے طور پر پرکھ رہی ہیں۔ تاہم برطانوی حکومت نے اس دعوؤں کے حوالے سے زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔
امریکا نے اس برطانوی انٹیلی جنس رپورٹ کو انتہائی تشویش کا باعث قرار دیا ہے۔ تاہم روس نے ان برطانوی الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
روسی وزارت خارجہ نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ برطانوی وزارت خارجہ ایک مرتبہ پھر غلط معلومات پھیلا رہی ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو یوکرائن کے معاملے پر تناؤ بڑھا رہی ہے۔
برطانیہ کی طرف سے یہ نئے الزامات ایک ایسے وقت میں عائد کیے گئے ہیں، جب امریکی اور روسی وزرائے خارجہ کے مابین جنیوا میں ہوئی ایک ملاقات میں اتفاق کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک اس کشیدگی کو کم کرنے کی خاطر مذاکراتی عمل جاری رکھیں گے۔
اشتہار
یوکرائن کے روس نواز رہنما
سن 2019 کے الیکشن میں مورایئف اپنی نشست ہار گئے تھے ان کی پارٹی پارلیمان میں مطلوبہ پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔ یوکرائنی پارلیمان میں نمائندگی کی خاطر کسی بھی پارٹی کو کم ازکم پانچ فیصد عوامی حمایت درکار ہوتی ہے۔
مورایئف یوکرائن کے ایک ٹی وی نیٹ ورک کے مالک ہیں۔ کییف حکومت کا الزام ہے کہ وہ اپنے اس چینل سے روسی پراپیگنڈے کو فروغ دے رہے ہیں اور اس چینل کو بند کرنے کی خاطر گزشتہ برس سے قانونی کارروائی جاری ہے۔
جرمن نیوی کے سربراہ متنازعہ بیان کے بعد مستعفی
جرمن بحریہ کے سربراہ نے یوکرائن اور روس سے متعلق اپنے بیان پر شدید تنقید کے بعد ہفتے کی شام استعفیٰ دے دیا۔
بھارت میں جمعے کو ایک تقریب سے خطاب میں وائس ایڈمرل کے آخِم شؤن باخ نے کہا تھا کہ یوکرائن جزیرہ نما کریمیا دوبارہ واپس نہیں لے سکے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ روس یوکرائن پر حملہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ ایسے الزامات بے بنیاد ہیں۔ جرمن نیوی کے سربراہ کے بقول روسی صدر عزت چاہتے ہیں اور شائد وہ قابل عزت ہیں بھی۔
کے آخِم شؤن باخ کے بقول یورپ کو چین کے مقابلے میں روس کو اپنی طرف رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس خطاب پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے کییف حکومت نے جرمن سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا تھا۔ جرمن نیوی کے مطابق وزیردفاع کرسٹینا لمبریشٹ نے شؤن باخ کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے۔