روسی حملے کا نازی جرمنی کے سوویت یونین پر حملے سے موازنہ
23 جون 2022
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ روس نے 24 فروری کو یوکرین پر حملے کے بعد ویسا ہی کیا جیسا کہ نازی جرمنی نے 22 جون 1941 کوسویت یونین پر حملے کے بعد کیا تھا۔
اشتہار
وولودمیر زیلنسکی نے دوسری عالمی جنگ کی سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا،"آج 22 جون کویوم غم ہے اور جنگ کے متاثرین کو یاد کرنے کا دن ہے۔ بیسویں صدی میں لڑی جانے والی ایک ایسی جنگ جسے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جانا چاہئے تھا اور جسے کبھی دہرایا نہیں جانا چاہئے تھا۔ لیکن اسے دہرایا گیا۔"
زیلنسکی نے کہا،"مجھے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ نازیوں نے 22 جون1941کو جیسا کیا تھا روس نے بھی 24 فروری کو ویسا ہی کیا۔ لیکن میں صرف ایک چیز کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت حملہ کیے جانے کی صبح سے 1418 دن گزر جانے کے بعد جارح کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔"
یوکرینی صدر نے کہا،"ہمیں اپنے وطن کو ہرحال میں آزاد کرانا ہے اور فتح حاصل کرنی ہے۔ لیکن تیزی کے ساتھ بہت زیادہ تیزی کے ساتھ۔"
انہوں نے مزید کہا،"یہ ہمارا قومی ہدف ہے، اور اسے حاصل کرنے کے لیے ہمیں یومیہ بنیاد پر کام کرنا ہوگا۔ صرف ریاست کو ہی نہیں بلکہ ہر شہری کو اور ہرممکن سطح پر۔"
سوویت یونین پر ہٹلر کے حملے کی سالگرہ
روس نے بدھ کے روز سوویت یونین پر نازی جرمنی کے حملے کے 81 برس مکمل ہونے پر کئی پروگراموں کا انعقاد کیا۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کریملن کی دیوار پر نامعلوم فوجیوں کی یاد گار پر گلہائے عقیدت پیش کیے۔
ہٹلر کی فوج نے 22 جون 1941 کو کییف، ماسکو اور بیلاروسی بریسٹ پر اچانک حملہ کردیا تھا۔ روس اس دن شروع ہونے والی جنگ کو "گریٹ پیٹریاٹک وار" قرار دیتا ہے اور اسی دن کی مناسبت سے ملک میں یوم غم اور جنگ سے متاثرین کی یاد کا دن منایا جاتا ہے۔
ماسکو ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس جنگ میں تقریبا ً دو کروڑ 70 لاکھ سوویت فوجی اور عام شہری مارے گئے تھے۔ ان کی یاد میں روسی مسلح افواج نے ماسکو کے سب سے بڑے گرجا گھر میں دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا۔ بعد میں گرجا گھر کے باہر 1418موم بتیاں روشن کی گئیں، جو اتنے ہی دنوں تک چلنے والی جنگ کی علامت تھی۔
یوکرین کے مقبوضہ بندرگاہی شہر ماریوپول میں ماسکو نواز کارکنوں نے 10000 موم بتیوں کے ذریعہ 22.06.1941 لکھا۔
یوکرین پر روسی حملے جاری
دریں اثنا منگل اور بدھ کے روز بھی خارکیف میں روسی فورسز کے حملے جاری رہے۔ علاقائی گورنر کے مطابق ان حملوں میں اب تک 25 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
کییف کے گورنر اولیہ سائنے ہوبوف نے کہا کہ روسیوں کی طرف سے خارکیف اور دیگر قصبات کے رہائشی علاقوں میں مسلسل گولہ باری ہورہی ہے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز)
دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریاں
دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریاں آج بھی جرمنی کے مختلف حصوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ نشان امن کے فروغ کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ وہ جنگ کی آگ سے نہ کھیلیں۔
تصویر: DW/Holm Weber
برلن کا چرچ
اس بات پر یقین مشکل لگتا ہے کہ 1945ء میں جرمن شہروں پر بھی اتنی شدت سے بمباری کی گئی جیسی بعض عراقی اور شامی شہروں میں۔ تباہ ہونے والی عمارتوں میں سے بعض کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا تاکہ وہ جنگ کی تباہ کاریوں کی یاد گار کے طور پر موجود رہیں۔ انہی میں برلن کا یہ ولہیلم میموریل چرچ بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hiekel
پانچ میناروں والی خوبصورت عمارت
رومن طرز تعمیر کے حامل ولہیلم میموریل چرچ کی تعمیر 1895ء میں مکمل ہوئی۔ اتحادی طیاروں نے اس پر 23 نومبر 1943ء کو اسے بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس چرچ کے 71 میٹر طویل ٹاور کا ملبے کو میموریل آف وار کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/akg-images
تباہی کی یاد گار
برلن کے فرانسسکن موناسٹری چرچ کی تاریخ 1250ء تک جاتی ہے۔ تین اپریل 1945ء کو اس چرچ کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ اس چرچ کی تعمیر نو تو کر دی گئی مگر بمباری کے نتیجے میں تباہ ہونے والے ملبے کو یاد دگار کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔
تصویر: gemeinfrei/imago/F. Berger
رائن کنارے کا چرچ
کولون کے وسط میں موجود سینٹ البان کا چرچ بھی دوسری عالمی جنگ کے دوران بمباری کا نشانہ بنا۔ اس تصویر میں اس چرچ کے تباہ شدہ کوائر کو دکھایا گیا ہے۔ بغیر چھت کے اس چرچ کو اب جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی یادگار کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔
تصویر: CC BY-SA 3.0/Raimond Spekking
بچی کھچی روایات
سینٹ البان سے کچھ ہی فاصلے پر موجود سینٹ کولمبا کا چرچ موجود ہے۔ یہ کولون شہر کے قدیم ترین چرچوں میں سے ایک ہے۔ اس کا سنگ بنیاد 980ء میں رکھا گیا تھا۔ یہ چرچ بھی 1943ء میں بمباری کے نتیجے میں تقریباﹰ مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
امید کی ایک اور کرن
اپریل 1945ء میں زیربسٹ محل پر بم برسائے گئے اور یہ جل کر تباہ ہو گیا۔ بیش قیمت اندرونی نقش ونگار تباہ ہو گیا۔ صرف اس کا مشرقی حصہ تباہی سے بچ گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Wolf
ہیمبرگ کا ’گومورا‘
ہیمبرگ کا یہ چرچ بھی بمباری کا نشانہ بنا۔ جنگ کے بعد ہیمبرگ کی سینیٹ نے اس کی تعمیر نو نہ کرانے کا فیصلہ کیا۔ سینٹ نکولاس چرچ کے باقیات کو 1933ء اور 1945ء کے درمیان جنگ کا شکار ہونے والوں کے نام کر دیا گیا۔ اس چرچ کے تہہ خانے میں ایک میوزیم قائم کر دیا گیا ہے جس میں جنگ کے بارے میں تفصیلات رکھی گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تباہی ایک نئی ابتداء
1945ء میں ڈریسڈن کا ’فراؤون کرشے‘ یا خواتین کا بمباری کا نشانہ بنا مگر یہ مکمل تباہی سے دوچار ہونے سے بچ گیا۔ تاہم بعد میں آگ بھڑک اٹھنے سے اس کا پتھر سے بنا بڑا گنبد گِر گیا۔ اس کا ملبہ اس کے بعد سے جنگ اور تباہی کے خلاف ایک یادگار کے طور پر موجود ہے۔
تصویر: Hulton Archive/AFP/Getty Images
نئی امید
جرمنی کے اتحاد کے بعد 1996ء میں اس کی بحالی کا کام شروع ہوا جو نو برس پر محیط تھا۔ پرانی عمارت کے پتھر نئی تعمیر میں بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کی تعمیر نو پر 180 ملین کا یورو کا خرچ ہوا جس کے لیے ملک اور ملک سے باہر 16 مختلف اداروں نے فنڈز فراہم کیے۔