1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

'روس کاراباخ معاہدے کو پورا کرنے میں ناکام '، آذربائیجان

17 جولائی 2023

باکو نے روس پر یہ الزام ایسے وقت عائد کیاہے جب یورپی یونین آذربائیجان اور آرمینیا کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کر رہی ہے۔ ادھر روس نے بھی اس مسئلے پر ماسکو میں نئے امن مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔

Berg-Karabach Konflikt | Armenische Soldaten
تصویر: Karen Minasyan/AFP/Getty Images

آذربائیجان نے روس اور آرمینیا پر الزام لگایا ہے کہ دونوں ملک نگورنو کاراباخ انکلیو میں جنگ بندی کے معاہدے کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے نگورنو کاراباخ سے آرمینیا کے لیے واحد زمینی راستے کو بند کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے خطے میں حالات پھر سے کشیدہ ہو گئے ہیں۔

آرمینیا اور آذربائیجان کے تنازعے پر امریکہ کی ثالثی کی کوشش

 ایک ایسے وقت جب اس مسئلے پر یورپی یونین کی ثالثی میں بات چیت کا آغاز ہوا ہے، روس نے بھی اس پر ماسکو میں نئے امن مذاکرات کی میزبانی کی پیشکش کی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان برسلز میں ہونے والی بات چیت کے دوران اتوار کے روز یورپی یونین نے آذربائیجان اور آرمینیا پر زور دیا کہ وہ ''تشدد اور سخت بیان بازی'' سے گریز کریں۔

آرمینیا اور آذربائیجان کی سرحد پر تصادم میں پانچ فوجی ہلاک

آذربائیجان کے صدر الہام علییوف اور آرمینیائی وزیر اعظم نکول پشینیان نے برسلز میں ملاقات کی، جس کا مقصد نگورنو کاراباخ پر کنٹرول کے لیے گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری تنازع کو حل کرنا ہے۔

آذربائیجان نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، آرمینیا

یورپی یونین کا موقف

یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے اس بات چیت میں ثالثی کا کردار ادا کیا، جن کا کہنا تھا کہ یہ تبادلہ ''صاف، ایماندارنہ اور ٹھوس'' تھا۔

آرمینیا آذربائیجان: سرحدی جھڑپوں کے دوران تقریبا ًسو فوجی ہلاک

 انہوں نے مزید کہا، ''میں نے ان کی اس بات پر حوصلہ افزائی کی کہ وہ جرات مندانہ اقدم اٹھائیں تاکہ معمول کے راستے پر فیصلہ کن اور ناقابل واپسی پیش رفت کو یقینی بنایا جا سکے۔''

آرمینیا اور آذربائیجان امن کے بعد اب ’اگلا قدم‘ بڑھائیں،پوٹن

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے آذربائیجان اور آرمینیا کے دونوں پڑوسیوں کے درمیان چھوٹے پہاڑی انکلیو، نگورنو کاراباخ، پر دو جنگیں ہو چکی ہیں جو، اصل میں آذربائیجان کا ایک حصہ ہےتصویر: Valery Sharifulin/TASS/dpa/picture alliance

مشیل نے بتایا کہ وہ اکتوبر میں علییوف اور پشینیان کے درمیان برسلز اور اسپین میں ایک اور میٹنگ منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس میں جرمن چانسلر اولاف شولس اور فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں بھی شامل ہوں گے۔

چارلس مشیل کا کہنا تھا، ''حقیقی پیش رفت اگلے اقدامات پر منحصر ہے جن کے مستقبل قریب میں اٹھائے جانے کی ضرورت ہو گی۔ ترجیحی معاملے کے طور پر، تشدد اور سخت بیان بازی کو روکنا چاہیے تاکہ امن اور مذاکرات کو معمول پر لانے کے لیے مناسب ماحول فراہم کیا جا سکے۔''

روس اور آذربائیجان میں تلخ کلامی

ہفتے کے روز روس نے کہا تھا کہ وہ آرمینیا اور آذربائیجان کے ساتھ وزرائے خارجہ کی سطح پر سہ فریقی اجلاس منعقد کرنے کے لیے تیار ہے، اس کا کہنا ہے کہ اس سربراہی اجلاس کے بعد ایک ایسے امن معاہدے پر دستخط کیے جا سکتے ہیں، جس کی پیروی ممکن ہو۔

روس نے کہا کہ اس تازہ معاہدے میں ''کاراباخ کے آرمینیائی باشندوں کے حقوق اور تحفظ کی قابل اعتماد اور واضح ضمانتیں '' اور روس، آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ہونے والے پہلے کے معاہدوں پر عمل درآمد کو بھی، اس کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔

باکو نے اس برہمی کا اظہار کرتے ہوئے غصے سے جواب دیا کہ کاراباخ میں بسنے والی آرمینیائی آبادی کے لیے کسی بھی قسم کی حفاظتی ضمانتیں قومی سطح پر فراہم کی جانی چاہیں، نہ کہ بین الاقوامی میکانزم کے تحت۔

آذربائیجان نے کہا کہ روس کا بیان ''مایوسی اور غلط فہمی کا باعث ہے'' اور ماسکو کی جانب سے آذربائیجان کی علاقائی سالمیت کی حمایت کے اعلانات سے بالکل متصادم ہے۔''

اس کا مزید کہنا تھا، ''معاہدے کے تعلق سے روسی فریق پر جو ذمہ داریاں ہیں، اس کے مطابق اس نے مکمل طور پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنایا۔ اس نے یریوان کی فوجی رسد کو کاراباخ میں علیحدگی پسند قوتوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔''

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے آذربائیجان اور آرمینیا کے دونوں پڑوسیوں کے درمیان چھوٹے پہاڑی انکلیو، نگورنو کاراباخ، پر دو جنگیں ہو چکی ہیں جو، اصل میں آذربائیجان کا ایک حصہ ہے، تاہم یہاں تقریباً 120,000 نسلی آرمینائی باشندے آباد ہیں۔

سن 2020 میں شدید لڑائی اور پھر روس کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے بعد آذربائیجان نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ باکو اور یریوان اس کے بعد سے ایک امن معاہدے پر تبادلہ خیال کرتے رہے ہیں جس میں روس بھی اپنا ایک اہم کردار برقرار رکھنے پر زور دے رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کو سرحدوں پر اتفاق کرنا ہے اور اس انکلیو سے حوالے سے  اختلافات کو حل کر کے تعلقات کو دوبارہ بحال کرنا ہے۔

تاہم گزشتہ ہفتے کے اوائل میں آذربائیجان کی جانب سے کاراباخ اور آرمینیا کے درمیان کے واحد زمینی رابطے کی ناکہ بندی اور اسے بند کرنے کے سبب ایک بار پھر سے حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ سن 2020 کے معاہدے کے تحت اس علاقے میں روس کے امن دستے تعینات ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)

آرمینیائی ’نسل کشی‘ میں جرمنی کا کردار

02:52

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں