روسی صدر نے نئے اور جدید کروز میزائل کا پہلی مرتبہ ذکر اپنے ’اسٹیٹ آف دی نیشن‘ خطاب میں یکم مارچ سن 2018 کو کیا تھا۔ اس میزائل کی ایک تصوراتی یا اینیمیٹڈ ویڈیو بھی نشر کی گئی تھی۔
اشتہار
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے پہلی مارچ سن 2018 کے خطاب کے بعد جو اینیمیٹڈ یا تصوراتی ویڈیو نشر کی گئی تھی، اُس میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح نیا روسی بیلسٹک کروز میزائل سمندروں اور زمینی خطوں پر سے گزرتا ہوا اور ہر قسم کے میزائل شکن نظام سے بچ کر اپنے ہدف کو نشانہ بناتا ہے۔ یہ ویڈیو روس کے انٹرنیشنل براڈکاسٹر 'رشیا ٹوڈے‘ پر نشر کی گئی۔
اس بیلسٹک میزائل کو روس کے ہتھیار سازی کے نئے نظام 9M730 بوریویسٹنِک (Burevestnik) ہتھیاروں کا حصہ قرار دیا گیا۔ مبصرین ابھی تک حیرت میں ہیں کہ آیا روسی صدر کے ذہن کا شاخسانہ اور 'رشیا ٹو ڈے‘ ٹیلی وژن کا بیلسٹک کروز میزائل ایک حقیقت بھی ہے۔ اس میزائل کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے 'اسکائی فال‘ کا نام دے رکھا ہے۔
گزشتہ ہفتے کے دوران دس اگست کو روسی جوہری ایجنسی روس ایٹم (Rosatom) نے تصدیق کی تھی کہ ایک راکٹ تجربے کے دوران ہونے والے پراسرار دھماکے میں پانچ ملازمین کی موت ہو گئی تھی۔ ایجنسی کے مطابق اس کے کم از کم تین اور بعض رپورٹوں کے مطابق چھ دیگر ملازمین کو جھلسنے سمیت مختلف نوعیت کے زخم آئے تھے۔
یہ دھماکا شمالی روس میں واقع ایک فوجی تنصیبات کے علاقے آرچن گیلسک (Archangelsk) کے ایک مقام پر ہوا۔ روسی نیوز ایجنسی ریا (RIA) نے جوہری ایجنسی کے توسط سے بتایا کہ دھماکا ایک راکٹ انجن میں دھرے سیال مادے میں ہوا تھا۔
اس دھماکے کے مقام کے قریبی شہر سیویروڈونسک (Severodvinsk) کی ویب سائٹ پر جمعرات آٹھ اگست کی دوپہر میں بتایا گیا کہ شہر کے اندر اچانک تابکاری شعاعوں میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ جمعہ نو اگست کو یہ بیان شہر کی ویب سائٹ سے ہٹا بھی دیا گیا۔
امریکی جوہری ماہرین نے کہا ہے کہ شمالی روس میں روسی جوہری تنصیبات کے مقام پر ہونے والے حادثاتی دھماکے کے بعد جوہری شعاعوں کا بھاری اخراج ہوا تھا۔ اندازوں کے مطابق یہ دھماکا جوہری توانائی سے چلنے والے کروز میزائل کی تیاری کے دوران کیے گئے تجربے کے دوران ہوا۔
امریکی ٹیلی وژن چینل سی این بی سی (CNBC) کی رپورٹوں کے مطابق فروری سن 2018 کے بعد سے روس نے نئے کروز میزائل کے پانچ تجربات کیے اور ہر مرتبہ ٹیسٹ ناکام ہوا۔ ہر تجربے میں میزائل پرواز کے بعد محض سترہ کلومیٹر سے زیادہ نہیں اڑ سکا اور گر کر تباہ ہو گیا۔ دوسری جانب روسی صدر کا موقف ہے کہ نئے کروز میزائل کا کامیاب تجربہ سن 2017 میں کیا گیا تھا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر روس کروز میزائل سازی کا تجربہ کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ دنیا کا پہلا بین البراعظمی کروز میزائل ہو گا جو اپنی ہیت میں انتہائی جدید اور بے پناہ قوت کا حامل ہو گا۔ ان کے مطابق یہ میزائل موجودہ بیلسٹک میزائلوں کی آئی سی بی ایم (ICBM) قسم سے بھی زیادہ اعلیٰ ہو گا۔
عملاً خیال کیا جاتا ہے کہ سن 1980 کے بعد بننے والے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کو روکنا نامکن ہے اور اس کی وجہ ان میزائلوں کی انتہائی تیز رفتاری ہے۔ دوسری جانب جوہری طاقت کا حامل راکٹ انجن وہ توانائی استعمال نہیں کرتا جو مادے جلا کر (Combustion) سے میزائل کو آگے بڑھنے میں تحریک دیتی ہے بلکہ جوہری فِشن (Fission) سے پیدا ہونے والی حدت کا استعمال کرتا ہے۔
فابیان شمٹ (عابد حسین)
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔