اقتدار کا مرکز، رہائش گاہ اور روسی ثقافت کا قلب۔ روسی تاریخ کے ہر دور میں ماسکو میں واقع کریملن میں سیاسی سرگرمیاں جاری رہی ہیں لیکن روسی حکمرانوں کے لیے یہ صرف اقتدار کی علامت نہیں ہے۔
اشتہار
دریائے ماسکوا کے پاس اونچی اونچی سرخ دیواروں کے ٹاور، کیتھیڈرلز کے چمکتے سنہری گنبد اور ریڈ اسکوائر پر واقع صدارتی محل ایک متاثر کن منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ عمارتیں ہمیشہ سے ہی روسی تاریخ کا مرکز رہی ہیں اور کریملن میں کئی حکمران طویل عرصے تک اعلیٰ ترین سیاسی نشست پر براجمان رہے ہیں۔ برطانوی مؤرخہ کیتھرین میریڈیل کہتی ہیں، ''کریملن روس کی تجسیم کا نام ہے اور اس کا مطلب ریاستی طاقت ہے۔‘‘
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین کی جنگ شروع ہونے سے پہلے بحرانی صورتحال پر بات چیت کے لیے جب فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں اور جرمن چانسلر اولاف شولس کا استقبال کیا تو دنیا نے دیکھا کہ ایک وسیع و عریض سفید میز پر دونوں رہنما صدر پوٹن سے کافی فاصلے پر آمنے سامنے بیٹھ کر ملاقاتیں کر رہے تھے۔ میریڈیل نے جرمن اخبار سے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا، ''یہ ایک شاندار تھیٹر بھی ہے۔‘‘
کریملن کی طویل اور بدنام تاریخ
روسی امور کی ماہر اور مؤرخہ کیتھرین میریڈیل سن 1980ء سے کریملن پر تحقیق کر رہی ہیں۔ انہوں نے سن 2014 میں 'ریڈ فورٹریس‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ وسیع پیمانے پر سراہی جانے والی اس کتاب میں روسی زار 'ایوان دی ٹیریبل‘ سے لے کر ولادیمیر پوٹن تک کریملن میں اقتدار
کے 500 سالوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
شاندار صدارتی محلات، اقتدار کے مراکز
روس میں کریملن، امریکا میں وائٹ ہاؤس اور فرانس میں ایلیزے پیلس شاندار سہی تاہم دنیا کے متعدد دیگر ممالک کے صدور کی رہائش گاہیں بھی اپنی شان و شوکت کے اعتبار سے کم نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Kay Nietfeld
ترک صدر کا سیاہ ’سفید محل‘
انقرہ میں ترک صدر کے لیے نیا ’سفید محل‘ تعمیر کیا گیا ہے۔ اس عالی شان محل میں ایک ہزار کمرے ہیں، جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جہاں جاسوسی کے خفیہ آلات کارگر نہیں ہوتے اور ایسے بھی جو ایٹمی حملے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تاہم عدالت میں متعدد درخواستوں کے باوجود تعمیر کیے جانے والے اس محل کو ناقدین سفید محل کی بجائے سیاہ محل قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/M.Ali Ozcan
پیٹرول سرمایے کی چمک دمک
قازقستان کی مرکزی حکومتی عمارت رات بھر اپنا رنگ بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں صدارتی محل کو امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کی مکمل نقل میں تیار کیا گیا۔ خام مال کے اعتبار سے مالدار ملک قازقستان میں حکمران خاندان ملکی امراء کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
ترکمانستان کا خواب محل
اشک آباد میں قائم سنہرے گنبد والا صدارتی محل دارالحکومت کی سب سے شاندار عمارت ہے۔ یہ محل خود کو ترکمانستان کا بانی قرار دینے والے نیازوف نے تعمیر کیا تھا، جب کہ ان کے دور میں بطور وزیرصحت خدمات انجام دینے والے بردی محمدوف اب ملکی صدر ہیں۔ انہوں نے سن 2007 میں عہدہء صدارت سنبھالا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ ملکی صدر ایک آمر کے تمام تر اختیارات سے لیس ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
کییف کی جاگیردارانہ رہائش گاہ
یہ عالی شان محل فروری میں ملک سے فرار ہونے والے یوکرائنی صدر وکٹور یانوکووچ نے تعمیر کرنا شروع کیا تھا۔ ان کے فرار کے بعد انٹرنیٹ پر اس محل کے حوالے سے تفصیلات سامنے آئیں۔ سن 2010 میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد یانوکووچ کا سب سے پہلا اقدام آٹھ ملین یورو مالیت کا ایک فانوس منگوانا تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images/Genya Savilov
لامحدود شان و شوکت
سابق یوکرائنی صدر کا دور حکومت بدعنوانی کی انتہا سے عبارت ہے۔ انہوں نے بے انتہا سونا جمع کیا۔ ان کے محل میں اُن کے عامیانہ جمالیاتی ذوق کی مظہر بے شمار رنگ برنگی چیزیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ اُنہوں نے قوم کے سینکڑوں ملین یورو اپنی جیبوں میں ڈال لیے۔ اقرباء پروری کی حد یہ کہ ان کے دونوں بیٹوں نے بھی اپنے والد کی وجہ سے بے پناہ پیسہ بنایا۔
تصویر: AFP/Getty Images/Yuriy Dyachyshyn
رومانیہ کی سج دھج
یہ انتہائی بڑی عمارت رومانیہ کے دارالحکومت بخارسٹ کے مرکز میں واقع ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق 84 میٹر بلند اور دو لاکھ پینسٹھ ہزار مربع میٹر پر پھیلی اس عمارے میں تین ہزار کمرے ہیں اور یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی عمارت ہے، جسے 1984ء میں رومانیہ کے آمر حکمران چاؤشیسکو نے اپنے قتل سے پانچ سال پہلے تعمیر کیا تھا۔
تصویر: tony4urban/Fotolia.com
پیرس کی جگمگاہٹ
پیرس میں دریائے سین کے کنارے واقع ایلیزے پیلس میں جا کر انسان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ کسی عجائب گھر میں آ گیا ہے۔ اس میں فن کے نادر نمونے اور تاریخی فرنیچر موجود ہے۔ اس کے تہ خانے میں کنکریٹ کی دیواروں اور فولادی دروازوں کے پیچھے فرانس کا ’جوہری کمانڈ سینٹر‘ قائم ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Giancarlo Gorassini
ایران کی شاہی چمک
تہران کے شمال مشرق میں سعد آباد کے علاقے میں سابق ایرانی بادشاہ رضاشاہ پہلوی کے 18 محلات موجود ہیں۔ سن 1920ء سے انہوں نے پے در پے ان عمارات کو وسعت دی۔ یہ ایک طرف تو سرکاری کاموں کے لیے استعمال ہوتی رہیں اور دوسری جانب رضاشاہ پہلوی انہیں اپنی ذاتی رہائش گاہوں کے طور پر بھی استعمال کرتے رہے۔ گرین پیلس رضاشاہ پہلوی اور ان کی بیوی ثریا کی موسم گرما کی رہائش گاہ ہوا کرتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Orand-Viala
دوحہ کا عظیم محل
اس محل میں قطر کے بادشاہ شیخ حماد بن خلیفہ الثانی رہائش پذیر ہیں۔ مغرب کی جانب جھکاؤ رکھنے والے الثانی نے سن 1996ء میں الجزیرہ نامی نشریاتی ادارہ شروع کیا۔ اپنی خارجہ پالیسی کی وجہ سے رقبے کے اعتبار سے اس چھوٹے سے ملک نے حالیہ برسوں میں خاصی توجہ حاصل کی ہے، تاہم قطر پر مختلف اسلام پسندوں کی حمایت کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Rainer Jensen
اکرا کا محل
یہ عالی شان محل گھانا کے صدر کا ہے۔ گھانا کو افریقہ میں استحکام اور اقتصادی ترقی کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ ملک کاکاؤ اور سونے کی برآمد کی وجہ سے مشہور ہے، تاہم اب بھی وہاں کے 23 ملین باشندے حکومتی سطح پر بدعنوانی کی وجہ سے غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPPA/Photoshot
متاثر کن فن
دنیا میں طاقت کے مراکز سمجھے جانے والے ممالک میں شاہکار فنی نمونے بھی ملتے ہیں۔ اس تصویر میں جرمن وزیرخارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر میکسیکو کے صدارتی محل میں ایک ایسے ہی شاہکار کو دیکھ رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bernd von Jutrczenka
جرمن صدارتی محمل، عوام سے قریب تر
یہ جرمن صدر کی سرکاری رہائش گاہ بیلے وو پیلس ہے۔ دریائے سپرے پر واقع یہ عمارت جدید و قدیم طرز تعمیر کا حسین ملاپ ہے۔ یہ دو منزلہ عمارت سن 1786 میں تعمیر کی گئی۔ موسم گرما میں یہاں ہونے والی تقریبات عام لوگوں میں خاصی مقبول ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Kay Nietfeld
12 تصاویر1 | 12
کریملن کی شان و شوکت اور بڑے رقبے کا ایک مقصد تھا: زارسٹ حکمرانی کے دوران کریملن کے محلات یورپ میں سب سے بڑے تصور کیے جائیں اور یہ دوسروں پر دھونس جمانے والا فنِ تعمیر تھا۔ میریڈیل کا کہنا ہے کہ اپنے پیشروؤں کی طرح موجودہ کریملن حکمران ولادیمیر پوٹن بھی جانتے ہیں کہ کریملن کو اپنے فائدے کے لیے کس طرح استعمال کرنا ہے اور دوسروں کو صدارتی دفتر کی عمارت کے وسیع ترین ہال اور چمکتے فانوس سے کیسے متاثر کرنا ہے۔
یہ بات حقیقیت ہے کہ روسی زار پیٹر دی گریٹ (1725- 1672) نے اپنی حکومت کی نشست ماسکو سے بحیرہ بالٹک پر سینٹ پیٹرسبرگ منتقل کردی تھی لیکن کریملن نے کبھی بھی روس کے حکمرانوں کے لیے اپنی کشش نہیں کھوئی۔
فرانسیسی سفارت کار اور سفرنامے لکھنے والے مصنف مارک آسٹولف دے کُسٹیں نے ماسکو میں موجود اِن عمارتوں کو 'شیطانی یادگار‘ اور 'ظالموں کے لیے سہارا‘ کے طور پر بیان کیا تھا۔ سن 1839 کے دوران موسم گرما میں کُسٹیں نے روس کا ایک طویل دورہ کیا اور ایک آمرانہ حکمرانی کو بیان کیا۔ ان کے الفاظ میں، ''استبداد لوگوں کی آزادانہ ترقی کو دباتا ہے۔‘‘ کُسٹیں مزید لکھتے ہیں، ''سب نوکر ہیں اور خاص طور پر اجنبیوں سے محتاط اور خفیہ ہو جاتے ہیں۔‘‘ انہوں نے روس کے پہلے عظیم زارسٹ سامراج کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے مشاہدات کی وضاحت پیش کی تھی۔
اشتہار
آرتھوڈوکس چرچ کی موجودگی
کیتھرین میریڈیل کے خیال میں روسی آرتھوڈوکس چرچ نے ہمیشہ سیاسی طور پر منتقسم کریملن میں ہم آہنگی کو یقینی بنایا ہے۔ منگول حملوں کے نتیجے میں، 14ویں صدی میں یوکرین اور بیلاروس کریملن میں داخل ہو گئے۔ وہاں ایک چرچ تعمیر کیا گیا اور بعد میں سنہری گنبد والا کیتھیڈرل آف دی ڈورمیشن بن گیا، جسے کیتھیڈرل آف ایسمپشن بھی کہا جاتا ہے۔ اس طرح آرتھوڈوکس چرچ کریملن میں ہمیشہ کے لیے موجود رہا ہے۔
میریڈیل کہتی ہیں، ''زاروں کے بعد کسی دیگر سربراہ مملکت کے مقابلے میں پوٹن نے اس مذہبی تعلق کو اپنے فائدے کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا ہے، ''وہ عوامی طور پر دعا کرتے ہیں، شمعیں روشن کرتے ہیں، مذہبی رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔‘‘
ایک طویل عرصے تک کریملن روسی زاروں کی رہائش گاہ رہا۔ سن 1918 میں، زار حکمرانی کا تختہ الٹنے اور آرتھوڈوکس چرچ کے اقتدار کے ٹوٹنے کے بعد، یہ پرانا قلعہ ایک بار پھر طاقت کا مرکز بن گیا۔
اس کے بعد بالشویک نے اسے فتح کر لیا۔ بہت جلد کمیونسٹ رہنماؤں کو کریملن کے فوائد یاد آگئے کہ یہ ایک ثقافتی نشان کے ساتھ ساتھ ایک ایسا قلعہ ہے جو حملوں اور قتل و غارت گری سے بچاتا ہے اور خانہ جنگی کے دوران مہلک وبائی سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔
لینن یہاں رہتے ہوئے ہیضے اور ٹائیفائیڈ کے ساتھ ساتھ ہسپانوی فلو سے بھی محفوظ رہے تھے۔ ان کے بیڈروم کے ساتھ اپنا ایک ڈس انفیکشن چیمبر موجود تھا۔ میریڈیل کے بقول، ''پوٹن نے اس معاملے میں لینن سے بہت کچھ سیکھا کیونکہ وہ بھی انفیکشن سے گھبراتے ہیں!‘‘
لینن کے جانشین جوزف اسٹالن (1953 - 1878) نے بھی احتیاط برتی: ایک پادری کے مددگار کے قتل کے بعد انہوں نے یہاں پناہ حاصل کی تھی۔ قاتلانہ حملے کے خوف سے اسٹالن نے اپنے پرانے ساتھیوں کو کریملن سے باہر نکال دیا۔ اسٹالن کو کسی پر بھروسہ نہیں رہا۔ حریفوں کے خلاف کارروائی، دکھاوی مقدموں اور دہشت گردی کا وقت شروع ہو گیا۔
میریڈیل کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیم کے میموریل پر پابندی لگا کر پوٹن جان بوجھ کر اسٹالن کے جرائم کی نشانیوں کو دبا رہے ہیں۔ کریملن کا حکمران خود کو روس کے عظیم لیڈروں کے تسلسل کی ایک کڑی کے طور پر دیکھتا ہے، سب سے پہلے ایوان چہارم یا ایوان دی ٹیریبل اور پھر پیٹر دی گریٹ، وہ بھی ایک ظالم حکمران تھا۔
گورباچوف، 'ایک حقیر رہنما‘
موجودہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے پاس سابق رہنما میخائیل گورباچوف کے لیے توہین کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ پوٹن انہیں سوویت یونین کے خاتمے کا ذمہ ٹھہراتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سابق سوویت یونین کے کمیونسٹ رہنما نکیتا خروشیف اور گورباچوف کی کھلی حکومتی پالیسیاں کریملن کو عوام کے دوبارہ قریب لانے میں کامیاب ہوگئیں۔
اصل موڑ سن 1991 میں اس وقت آیا جب گورباچوف اور بورس یلٹسن کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد وہ کریملن چلے گئے۔ کچھ عرصے کے لیے دو صدور ایک ساتھ اپنے عہدے پر فائز رہے تھے۔ لیکن سوویت یونین تاریخ بن چکا تھا اور کریملن ایک مرتبہ پھر روس کا مرکز بن گیا۔
مئی 2000ء: پوٹن پہلی مرتبہ صدر بن گئے
دریائے موسکوا پر واقع ان تاریخی سیاسی عمارتوں اور گرجاگھروں کے پاس سب سے اوپر روسی پرچم لہراتا نظر آتا ہے۔ میریڈیل نے جرمن اخبار زؤڈ ڈوئچے سائٹنگ سے گفتگو میں کہا کہ باہر سے کریملن بہت طاقتور لگ رہا ہے لیکن اندر سے اسے خود کو کھونے کا خطرہ لاحق ہے۔ ان کے بقول، ''جب آپ نے تمام ناقدین کو ہٹا دیا ہو، تو آپ اپنی انا کے قیدی بن جاتے ہیں۔‘‘
آپ کا وفد صرف وہی دہراتا ہے، جو آپ سننا چاہتے ہیں، ''وہ روس میں سب سے زیادہ حفاظت کرنے والا شخص ہے۔ ہم اس سے اتنی جلدی چھٹکارا نہیں حاصل کر پائیں گے۔‘‘
اسٹیفان ڈیگے، ع آ / ا ا
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کی فتح کی یاد میں جشن
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کی یاد منانے کے موقع پر روسی فوج نے اپنی طاقت اور نئی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر پوٹن نے متنبہ کیا کہ تاریخ کو دوبارہ لکھے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ریڈ اسکوائر میں جشن
روس ہر سال نو مئی کو سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کا جشن مناتا ہے۔ 1945ء کی اسی تاریخ کی نصف شب کو نازی جرمنی نے شکست تسلیم کر لی تھی۔ دیگر اتحادی ممالک مثلاﹰ فرانس اور برطانیہ فتح کا دن آٹھ فروری کو مناتے ہیں۔ ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں ہونے والی اس پریڈ کی سربراہی روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے کی۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
ریڈ آرمی کے قیام کے 100 برس
2018ء کی یوم فتح کی پریڈ سابق سوویت یونین کی ’ریڈ آرمی‘ کے قیام کے 100 برس مکمل ہونے کی یادگار میں بھی تھی۔ اس موقع پر 13 ہزار کے قریب فوجیوں نے انتہائی منظم انداز میں پریڈ کی۔ اس موقع پر سابق فوجیوں کی کافی تعداد بھی موجود تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی یہ پریڈ دیکھی جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو میں تھے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ایک ’قابل تعظیم‘ چھٹی کا دن
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پریڈ کے شرکاء سے بات چیت کی، مثلاﹰ تصویر میں نظر آنے والے یوتھ ملٹری گروپ کے ارکان۔ روسی صدر کے مطابق، ’’یہ ایک چھٹی کا دن ہے جو ہمیشہ سے تھا، ہے اور رہے گا اور یہ ہر خاندان کے لیے قابل تعظیم رہے گا۔ انہوں نے اس موقع پر دنیا کو ان غطیوں سے خبردار کیا جو دوسری عالمی جنگ کی وجہ بنیں: ’’انا پرستی، عدم برداشت، جارحانہ قوم پرستی اور منفرد ہونے کے دعوے۔‘‘
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
’روسی کارہائے نمایاں مٹائے نہیں جا سکتے‘
روسی اکثر یہ کہتا ہے کہ مغربی اتحادی نازی جرمنی کو شکست دینے میں روس کے کردار کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوٹن کے مطابق، ’’یورپ کو غلامی اور مکمل خاتمے کے خطرے اور ہولوکاسٹ کی دہشت سے بچانے میں ہماری افواج نے جو کردار ادا کیا آج لوگ ان کارناموں کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ روسی صدر نے خود کو روایتی یورپ کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
ہوشیار باش اسنائپرز
ریڈ اسکوائر پر صرف فوجی قوت کا ہی مظاہرہ نہیں ہوا بلکہ اس تمام کارروائی کے دوران ارد گرد کی عمارات پر ماہر نشانہ باز بھی بالکل ہوشیار باش تھے۔ ریڈ اسکوائر ماسکو کے وسط میں واقع ہے اور یہ روسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کریملن کا علاقہ ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
نئے ہتھیاروں کی نمائش
اس پریڈ کے دوران 159 کی تعداد میں فوجی ساز و سامان کی بھی نمائش کی گئی۔ ان میں میزائل سے مسلح ایک MiG-31 سپر سانک جیٹ بھی شامل تھا۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق زیادہ تر جدید ہتھیاروں کو شامی جنگ میں جانچا جا چکا ہے۔ نمائش کے لیے پیش کیے گئے اسلحے میں ڈرون، باردوی سرنگیں صاف کرنے والا روبوٹ اور انسان کے بغیر کام کرنے والا ٹینک بھی شامل تھا۔