روس کو عالمی سطح پر تنہا نہیں کیا جا سکتا، صدر پوٹن
13 اپریل 2022
صدر پوٹن کا کہنا تھا کہ روس کو دنیا سے الگ تھلگ نہیں کیا جا سکتا اور آج کی دنیا میں کسی ملک کو تنہا کرنا انتہائی مشکل ہے۔ انہوں نے یوکرینی قصبے بوچہ میں نسل کُشی کا الزام بھی مسترد کر دیا ہے۔
اشتہار
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا ملک میں منائے جانے والے 'اسپیس ڈے‘ کے موقع پر کہنا تھا، '' ہم تنہا نہیں ہو سکتے، آج کی دنیا میں کسی ملک کو تنہا کرنا انتہائی مشکل ہے، خصوصاﹰ روس جیسے ملک کو۔‘‘ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد پہلی بار روسی صدر نے عوام سے جنگ کے متعلق خطاب کیا۔ صدر پوٹن نے اپنے خطاب میں روسی عوام سے عہد کیا کہ روس یوکرین میں اپنے تمام ''عظیم مقاصد‘‘ حاصل کرے گا۔ صدر پوٹن نے ماسکو کے مشرق میں واقع ووسٹوچنی کاسمو ڈروم کے مقام پر اپنے خطاب میں کہا، ''ہم یوکرین کے ساتھ مذاکرات میں ایک بار پھر بند گلی کی طرف لوٹ آئے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنے اس خطاب میں یوکرین کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اشارہ دیا ہے۔
صدر پوٹن نے کہا کہ کییف نے روس کے جنگی جرائم کے جھوٹے دعوے اور پورے یوکرین کا احاطہ کرنے کے لیے حفاظتی ضمانتوں کا مطالبہ کر کے امن مذاکرات کو اس نہج پر پہنچایا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا روس یوکرین میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟ صدر پوٹن کا کہنا تھا، ''یقیناﹰ، اس بات میں شک کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔‘‘
روسی قوم کے مستقبل کے لیے فوجی کارروائی شروع کی ہے، پوٹن
00:49
ان کا کہنا تھا کہ روس منظم طریقے سے اپنی کارروائی جاری رکھے گا تاہم اس جنگ کا سب سے اہم مقصد، جو کہ یک قطبی بین الاقوامی نظام، جسے امریکہ نے سرد جنگ کے بعد بنایا تھا، ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس کے پاس لڑائی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ مشرقی یوکرین کے روسی زبان بولنے والوں کا دفاع کرنا اور روس کے سابق سوویت پڑوسی کو ماسکو کے دشمنوں کے لیے روس مخالف سپرنگ بورڈ بننے سے روکنے کے لیے ایسا کرنا لازم ہو گیا تھا۔
دوسری جانب یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ 2014ء میں پوٹن کی طرف سے کریمییا کے الحاق کے بعد اور 21 فروری کو اپنے دو علیحدگی پسند علاقوں کو خودمختار تسلیم کرنے کے بعد اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔
مختلف خبر رساں اداروں کے نمائندوں نے بوچہ میں لاشیں دیکھی ہیں لیکن کوئی بھی آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا ہے کہ یہ روسی افواج کی جانب سے ہوا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی صدر پوٹن پر 'نسل کشی‘ اور جنگی جرائم کا الزام عائد کیا ہے۔
ولادیمیر پوٹن کے مختلف چہرے
امریکی جریدے ’فوربز‘ نے اپنی سالانہ درجہ بندی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ دیکھتے ہیں، پوٹن کی شخصیت کے مختلف پہلو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کے جی بی سے کریملن تک
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev
پہلا دورِ صدارت
یلسن کی حکومت میں پوٹن کی تقرری کے وقت زیادہ تر روسی شہری اُن سے ناواقف تھے۔ یہ صورتِ حال اگست 1999ء میں تبدیل ہو گئی جب چیچنیہ کے مسلح افراد نے ہمسایہ روسی علاقے داغستان پر حملہ کیا۔ صدر یلسن نے کے جی بی کے سابق افسر پوٹن کو بھیجا تاکہ وہ چیچنیہ کو پھر سے مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول میں لائیں۔ سالِ نو کے موقع پر یلسن نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دے دیا اور پوٹن کو قائم مقام صدر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
میڈیا میں نمایاں کوریج
سوچی میں آئس ہاکی کے ایک نمائشی میچ میں پوٹن کی ٹیم کو چھ کے مقابلے میں اٹھارہ گول سے فتح حاصل ہوئی۔ ان میں سے اکٹھے آٹھ گول صدر پوٹن نے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Nikolsky
اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں
اپوزیشن کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ایک شخص نے منہ پر ٹیپ چسپاں کر رکھی ہے، جس پر ’پوٹن‘ لکھا ہے۔ 2013ء میں ماسکو حکومت نے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کا اعلان کرتے ہوئے اُس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا، جسے مغربی دنیا کا سخت ناقد سمجھا جاتا تھا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے پریس فریڈم کے اعتبار سے 178 ملکوں کی فہرست میں روس کو 148 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/V.Maximov
پوٹن کی ساکھ، اے مَین آف ایکشن
روس میں پوٹن کی مقبولیت میں اس بات کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کہ وہ کے جی بی کے ایک سابق جاسوس اور عملی طور پر سرگرم شخص ہیں۔ اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو ایسی تصاویر کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اُنہیں برہنہ چھاتی کے ساتھ یا کسی گھوڑے کی پُشت پر یا پھر جُوڈو کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ روس میں استحکام لانے پر پوٹن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن آمرانہ طرزِ حکمرانی پر اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Nikoskyi
دم گھونٹ دینے والی جمہوریت
2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں صدر پوٹن کی جماعت ’یونائیٹڈ رَشیا‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناقدین نے کہا تھا کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی جمہوری۔ صدر پوٹن پر دم گھونٹ دینے والی جمہوریت کا الزام لگانے والوں نے جلوس نکالے تو پولیس نے اُن جلوسوں کو منتشر کر دیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ اس جلوس میں ایک پوسٹر پر لکھا ہے:’’شکریہ، نہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/Y.Kadobnov
پوٹن بطور ایک مہم جُو
سیواستوپول (کریمیا) میں پوٹن بحیرہٴ اسود کے پانیوں میں ایک ریسرچ آبدوز کی کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں۔ اِس مِنی آبدوز میں غوطہ خوری اُن کا محض ایک کرتب تھا۔ انہیں جنگلی شیروں کے ساتھ گھومتے پھرتے یا پھر بقا کے خطرے سے دوچار بگلوں کے ساتھ اُڑتے بھی دکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں اُن کی بطور ایک ایسے مہم جُو ساکھ کو پختہ کر دیا جائے، جسے جبراً ساتھ ملائے ہوئے علاقے کریمیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Novosti/RIA Novosti/Kremlin
7 تصاویر1 | 7
صدرپوٹن نے کہا، ''کیا آپ نے شام کے شہر دیکھے ہیں، جنہیں امریکی طیاروں کے حملوں نے ملبے میں تبدیل کر دیا اور لاشیں کئی ماہ تک ان کھنڈرات میں سڑتی رہیں؟ کسی کو پروا نہیں تھی نا کسی نے اس بات کو محسوس کیا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ جب شام میں اشتعال انگیزی کا ڈرامہ رچایا گیا اور اور اسد حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کیا گیا، تب بھی دنیا بھر میں اس کے خلاف احتجاج ہوا اور پھر انکشاف ہوا کے وہ سب جعلی تھا۔ ان کا کہنا تھا، ''بوچہ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔‘‘
صدر پوٹن روس اور یوکرین کے عوام کو ایک ہی قرار دیتے ہیں اور اس جنگ کو امریکہ کے ساتھ ایک ناگزیر تصادم کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ امریکہ روس کے ہمسایہ ملک میں ماسکو کے لیے خطرات کھڑے کر رہا ہے۔