برلن نے ماسکو کی جانب سے تین جرمن غیر سرکاری تنظیموں (این جی او) کے خلاف کارروائی کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ روس اور جرمن شہریوں کو قریب لانے کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔
اشتہار
روس کے پراسیکیوٹر جنرل نے 26 مئی بدھ کے روز اپنے ایک اہم فیصلے میں جرمنی کے تین غیر سرکاری اداروں کو غیر ضروری بتاتے ہوئے انہیں 'ناپسندیدہ'' قرار دے دیا۔ روس کے اس فیصلے پر جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔
روس کے پراسیکیوٹرجنرل نے 'فورم آف رشیئن اسپیکنگ یورپیئنز'، 'سینٹر فار لبرل موڈرینٹی' اور جرمن رشیئن ایکسچینج' نامی جرمن غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے ایک قانون کے تحت کارروائی کی ہے جس کا مقصد روسی حکومت کے خلاف تنقید کو روکنا ہے۔
اشتہار
روس نے یہ اقدام کیوں کیا؟
روس کے پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر کا دعوی ہے کہ جرمنی کے ان تینوں غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں سے، ''روسی فیڈریشن کے آئینی حکم اور سلامتی کی اساس کو خطرہ لاحق ہے۔'' ان میں سے دو تنظیموں نے سینٹ پیٹرز برگ میں ہونے والے روس جرمن فورم میں بھی شرکت کی تھی جو سول سوسائٹی کے ساتھ دونوں ممالک کے تھنک ٹینک کے ماہرین اور پالیسی سازوں کو ایک ساتھ لانے کا کام کرتی ہیں۔
یہ قدم ایک ایسے وقت اٹھایا گیا ہے جب روس نے بیرونی امداد حاصل کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق ایک متنازعہ قانون متعارف کیا ہے جس کے تحت انہیں ''بیرونی ایجنٹ'' کے طور پر ملک میں رجسٹر کرنا لازمی ہو گیا ہے۔
سربیا کے خلاف نیٹو کی فوجی کارروائی کے بیس برس
سربیا کے خلاف نیٹو کی فوجی کارروائی اقوام متحدہ کی باقاعدہ اجازت کے بغیر چوبیس مارچ سن 1999 کو شروع ہوئی تھی۔ اس عسکری مشن سے سرب فوج کے کوسووو کی البانوی نژاد آبادی پر حملے کنٹرول کیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کوسووو کے تنازعے کے ابتدائی اشارے
کوسوو کے تنازعے کی صورت حال سن 1990 کی دہائی میں خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ امن کی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد چوبیس مارچ سن1999 کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے سرب فوج کے خلاف اپنے فضائی حملوں آغاز کر دیا۔ یہ حملے گیارہ ہفتوں تک جاری رہے۔
تصویر: Eric Feferberg/AFP/GettyImages
غیر متشدد مزاحمتی تحریک کی ناکامی
سن 1980 کی دہائی میں بلغراد حکومت کی طرف سے البانوی نسلی اقلیت کے ثقافتی حقوق کے تحفظ میں ناکامی کے بعد کوسووو کے عوام نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ کوسووو کے رہنما ابراہیم روگووا کی یہ سیاسی کوشش اس لیے ناکام ہوئی کہ سرب رہنما سلوبوڈان میلوشیووچ اپنی سوچ میں تبدیلی پر تیار نہیں تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مسلح گوریلا جنگ
حالات پرتشدد ہونے کے بعد کوسووو لبریشن آرمی نے ایک مسلح گوریلا جنگ شروع کر دی۔ اس نے سرب آبادی کے ساتھ ساتھ البانوی نژاد افراد کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ سرب دستوں نے ان دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں اس نسلی اقلیت کی ملکیت گھروں اور دکانوں کو نذرآتش کرنا شروع کر دیا۔ ہزار ہا لوگوں جانیں بچاتے ہوئے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
منظم بے دخلی
سربیا کی جنگ شدید تر ہوتی گئی اور اس دوران کوسووو لبریشن آرمی کی طرف سے سخت مزاحمت کے تناظر میں سرب فوجوں نے عام شہریوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ہزارہا ’کوسووار‘ باشندوں کو ریل گاڑیوں اور ٹرکوں کے ذریعے سرحدی علاقوں کی جانب منتقل کر دیا گیا۔ ان کی اکثریت کے پاس اپنی شناختی دستاویزات تک نہیں تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مذاکرات کی آخری کوشش بھی ناکام
امریکا، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور روس نے اس تنازعے کے فریقین کو فروری سن 1999 میں پیرس کے نواحی علاقے ریمبولے میں منعقدہ ایک کانفرنس میں مدعو کیا تاکہ کوسووو کے لیے عبوری خودمختاری کا سمجھوتہ طے پا سکے۔ کوسووو نے اس ڈیل پر رضامندی ظاہر کر دی لیکن سربیا نے کوئی رعایت دینے سے انکار کر دیا تو یہ مذاکرات بھی ناکام ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’انسانیت کے نام پر فوجی مداخلت‘
چوبیس مارچ سن 1999 کو نیٹو نے سربیا کے فوجی اور اسٹریٹیجک مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا تا کہ کوسووو کی البانوی نژاد آبادی کو پرتشدد حملوں سے بچایا جا سکے۔ جرمنی بھی ان حملوں میں شریک تھا۔ مغربی دفاعی اتحاد کی قیام کے بعد کے پچاس برسوں کی تاریخ میں یہ نیٹو کی پہلی جنگ کارروائی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس کی حمایت نہیں کی تھی اور روس نے نیٹو کی اس کارروائی کی شدید مذمت کی۔
تصویر: U.S. Navy/Getty Images
بنیادی ڈھانچے کی تباہی
نیٹو کے جنگی طیاروں نے مسلسل اناسی دنوں تک سینتیس ہزار فضائی مشن مکمل کیے۔ سربیا کے اہم مقامات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران رسد کے راستے ختم کرنے کے لیے بے شمار پل اور ریلوے ٹریک تباہ کر دیے گئے۔ سربیا پر بمباری کے علاوہ دو ہزار راکٹ بھی داغے گئے، جس دوران بہت سے عام شہری بھی مارے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پانچیوو کے اوپر زہریلے بادل
بلغراد کے قریبی شہر پانچیوو کی کیمیائی کھاد بنانے والی ایک فیکٹری پر بھی نیٹو کے جنگی طیاروں نے بم برسائے۔ اس حملے کے بعد اس فرٹیلائزر فیکٹری سے انتہائی مضر کیمیائی مادہ دھوئیں کی صورت میں پانچیوو کی فضا میں پھیل گیا۔ سربیا نے نیٹو پر الزام لگایا کہ اس حملے میں کلسٹر بموں کے ساتھ ساتھ افزودہ یورینیم والے ہتھیار بھی استعمال کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جنگی پراپیگنڈے کے خلاف بھی جنگ
سربیا کے رہنما سلوبوڈان میلوشیووچ کے پراپیگنڈے کو روکنے کے لیے نیٹو کے جنگی طیاروں کو بلغراد کے ٹیلی وژن اسٹیشن کو بھی نشانہ بنانا پڑا۔ اس حملے سے قبل سربیا کی حکومت کو مطلع بھی کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں سولہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط اہداف پر بمباری
نیٹو کی بمباری کے دوران ایک مرتبہ البانوی نژاد مہاجرین کا ایک قافلہ بھی نشانہ بن گیا تھا، جس میں اسی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح بلغراد میں چینی سفارت خانے پر بھی غلطی سے بم گرنے سے چار افراد کی موت ہوئی۔ اس واقعے کے بعد بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان ایک شدید سفارتی تنازعہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔
تصویر: Joel Robine/AFP/GettyImages
المناک میزانیہ
سلوبوڈان میلوشیووچ کی طرف سے ہتھیار پھینکنے کے ابتدائی پیغام سے ہی خوف و ہراس کے سلسلے میں کمی پیدا ہونے لگی تھی۔ نیٹو نے انیس جون سن 1999 سے بمباری بند کرنے کا عندیہ دے دیا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک اور ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد افراد بےگھر ہو گئے تھے۔ سرب معیشت زوال پذیر تھی اور بیشتر انتظامی ڈھانچے تباہ ہو گئے تھے۔ پھر کوسووو کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
11 تصاویر1 | 11
جن تین تنظیموں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے ان کے ہیڈ کوارٹرز برلن میں ہیں۔ سینٹر فار لبرل موڈرنٹی اپنے آپ کو جمہوریت اور آزادی کے لیے کام کرنے والا ایک تھنک ٹینک بتاتا ہے۔ یہ ادارہ ماسکو میں انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم سکاروف سینٹر کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ اس ادارے نے روسی اقدام کو غیر ذمہ دارانہ سیاسی کارروائی بتایا ہے۔ اس کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا، ''اس کا مقصد ہمارے روسی شراکت داروں کے ساتھ ہمارے تعاون کو روکنا ہے۔ ہم نے روس میں پوٹن کے اقتدار پر اپنی نکتہ چینی کو کبھی مخفی نہیں رکھا اور اس سلسلے میں روسی سول سوسائٹی کے ساتھ ہم مزید تعاون کی کوشش جاری رکھیں گے۔''
جرمن رشیئن ایکسچینج نامی ادارہ بھی سینٹ پیٹرز برگ میں اپنے دیگر معاونین کی مدد سے پروگرام منعقد کرتا رہا ہے۔ 'رشیئن اسپیکنگ یورپیئنس' کے نام جا ادارہ اس روسی مطالبے کی مخالفت کرتا ہے جس میں کریملن یورپ میں روسی زبان بولنے والوں کا اعتراف کرنے کی مانگ کرتا رہا ہے۔
یورپ کے حسین ترین فوارے
یورپ کے مختلف شہروں میں آج کل موسم گرما کی حدت میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایسے موسم میں ٹھنڈے پانی کے فوارے لوگوں کی توجہ خاص طور پر حاصل کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Eibner-Pressefoto
تریوی فوارہ، روم
اطالوی دارالحکومت میں واقع اس فوارے کے حوالے سے روایت ہے کہ اس میں سکہ پھینکیں تو آپ دوسری مرتبہ بھی روم آئیں گے۔ سالانہ بنیاد پر روم کی شہری حکومت کو اس فوارے کے تالاب سے تقریباً ایک ملین یورو کے سکے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ مقام فلم بنانے والوں کو بہت پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/Rossi
ٹریفالگر اسکوائر کا فوارہ، لندن
برطانوی دارالحکومت لندن کا ٹریفالگر اسکوائر ایک مشہور چوراہا ہے۔ یہاں قائم فوارہ افراد کی ملاقات کا بھی مرکز کہلاتا ہے۔ یہ فوارہ سن 1939 میں برطانوی بحریہ کے دو ایڈمرلز کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ لندن کے باسی اس فوارے کے تالاب کے گرد بیٹھنا بہت پسند کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/G.A. Rossi
وارسا فوارہ، پیرس
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں واقع یہ فوارہ بنیادی طور پر جمالیاتی حسن کا ایک نادر نمونہ ہے۔ اس کے کنارے پر نصب بیس پانی چھوڑنے والی توپیں بھی اپنی طرز کا شاہکار ہیں۔ ان سے نکلنے والا تیز دھار پانی کا رخ مشہور یادگاری مقام آئفل ٹاور کی جانب ہوتا ہے اور یہ دھار پچاس میٹر تک جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AFP Creative/B. Guay
سینٹ پیٹرزبرگ، واٹر گیمز کا مقام پیٹرہوف
روس کے پرشکوہ شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں زارِ روس نے اٹھارہویں صدی میں پیٹر ہوف کے مقام پر فرانسیسی شہر ورسائے کے تاریخی محل جیسا ایک پیلس بنانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ زار تو نہ رہا لیکن پانی کے فواروں کا پیٹرہوف آج بھی کشش کا باعث ہے۔ ہر صبح گیارہ بجے یہ کھول دیا جاتا ہے اور پھر ہر سیکنڈ میں ڈیڑھ سو فواروں سے تیس ہزار لٹر پانی کی پرشکوہ پھواریں پھوٹ پڑتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Maschmeyer
منجُوئیک کا جادوئی فوارہ، بارسلونا
ہسپانوی علاقے کاتالونیا کے دارالحکومت بارسلونا کے مقام منجُوئیک میں سن 1929 میں ایک حیران کُن فوارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ فوارہ عالمی نمائش گاہ میں بنایا گیا۔ ہر شام یہ فوارہ موسیقی اور روشنی سے مزین ہو کر شائقین کے دل و دماغ پر سحر طاری کر دیتا ہے۔ اس کے مختلف سوراخوں سے ہر سکینڈ میں دو ہزار لٹر پانی پھینکا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Fell
ژہ ڈُو فوارہ، جنیوا
سوئٹزرلینڈ کے بین الاقوامی شناخت کے شہر جنیوا میں ژہ ڈُو فوارے سے 140 میٹر بلند زوردار دھار نکلتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر ہائیڈرالک پاور پلانٹ کا ایک حفاظتی والو تھا لیکن بعد میں یہ افراد کی توجہ کا مرکز بنتا چلا گیا۔ اس کی جگہ تبدیل کر کے جنیوا کی جھیل میں نصب کر دیا گیا تا کہ اس فوارے کی قوت بخش دھار کے لیے پانی کا پریشر مسلسل قائم رہے۔
تصویر: picture-alliance/Keystone/S. di Nolfi
ولیمز ہوہے بیرگ پارک، کاسل
جرمن شہر کاسل کے ایک بلند مقام ولیمز ہوہے بیرگ پارک میں یہ قابل دید فوارے قائم ہیں۔ سن 2013 میں اس مقام کو عالمی ثقافتی میراث کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ باغ یورپی باروک فنِ تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔ مئی سے اکتوبر تک ہزاروں شائقین اس مقام پر پانی کے فواروں سے دل لبھاتے ہیں۔ اس کا سب سے حسین مقام پچاس میٹر بلند دھار والا فوارہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
The Giant, Wattens
دی جائنٹ، واٹنز
آسٹریا کے شہراِنزبرُوک کے نواح میں واٹنز کا مقام ہے اور یہاں پر’دی جائنٹ‘ نام کا مشہور فوارہ اور کرسٹل آرٹ ورک کا میوزیم بھی ہے۔ یہ تخلیق ملٹی میڈیا آرٹسٹ ہیلر کی ہے۔ وہ ایک جن کی کہانی سے متاثر ہوئے اور پھر ایک یادگار نے جنم لیا۔
کیا نل کی ٹونٹی فضا میں متحرک ہو سکتی ہے؟ ہسپانوی جزیرے مینورکا میں نل نما فوارہ دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ یہ کوئی معجزہ نہیں لیکن یہ پانی کا سراب محسوس ہوتا ہے۔ اس طرح کے کئی متحرک فوارے بیلجیم کے شہر اپرس یا ہسپانوی کاڈیس شہر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
انتہائی چھوٹا سا مگر بے پناہ مشہور فوارہ مانیکن پِس ہے۔ برسلز شہر میں پیشاب کرتے بچے کا یہ فوارہ بظاہر ایک نل کی طرح ہے۔ تانبے سے بنا مانیکن لڑکے کا مجسمہ صرف اکسٹھ سینٹی میٹر بلند ہے۔ اس مجسمے کو باقاعدگی سے لباس پہنایا جاتا ہے اور دچسپ امر یہ ہے کہ یہ لباس میں ہوتے ہوئے بھی برہنہ دکھائی دیتا ہے۔ مانیکن کے ایک ہزار مختلف لباس ہیں اور یہ وقتاً فوقتاﹰ تبدیل کیے جاتے ہیں۔
روسی وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ان پابندیوں پر اپنے رد عمل میں کہا، ''ان تنظیموں کے کاموں پر پابندی عائد کرنے سے، جو ہمارے دونوں ممالک اور عوام کے مابین افہام و تفہیم کے لیے کوشاں ہیں، روس کے ساتھ بہتر تعلقات کے حصول کی ہماری کوششوں کو ایک زبردست دھچکا لگا ہے۔ ان کے کام کے لیے اس طرح کے اقدام کوئی جواز نہیں ہو سکتا ہے۔''
جرمن وزیر خارجہ نے روس سے اس کارروائی کو واپس لینے پر زور دیتے ہوئے، ''سول سوسائٹی کے ساتھ اس طرح کے آزادانہ تبادلہ خیال کی حوصلہ افزائی کی۔'' ان کا کہنا تھا، ''سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مجرم ٹھہرائے بغیر انہیں ان کا کام کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔''
ص ز/ ج ا (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کی فتح کی یاد میں جشن
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کی یاد منانے کے موقع پر روسی فوج نے اپنی طاقت اور نئی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر پوٹن نے متنبہ کیا کہ تاریخ کو دوبارہ لکھے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ریڈ اسکوائر میں جشن
روس ہر سال نو مئی کو سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کا جشن مناتا ہے۔ 1945ء کی اسی تاریخ کی نصف شب کو نازی جرمنی نے شکست تسلیم کر لی تھی۔ دیگر اتحادی ممالک مثلاﹰ فرانس اور برطانیہ فتح کا دن آٹھ فروری کو مناتے ہیں۔ ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں ہونے والی اس پریڈ کی سربراہی روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے کی۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
ریڈ آرمی کے قیام کے 100 برس
2018ء کی یوم فتح کی پریڈ سابق سوویت یونین کی ’ریڈ آرمی‘ کے قیام کے 100 برس مکمل ہونے کی یادگار میں بھی تھی۔ اس موقع پر 13 ہزار کے قریب فوجیوں نے انتہائی منظم انداز میں پریڈ کی۔ اس موقع پر سابق فوجیوں کی کافی تعداد بھی موجود تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی یہ پریڈ دیکھی جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو میں تھے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ایک ’قابل تعظیم‘ چھٹی کا دن
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پریڈ کے شرکاء سے بات چیت کی، مثلاﹰ تصویر میں نظر آنے والے یوتھ ملٹری گروپ کے ارکان۔ روسی صدر کے مطابق، ’’یہ ایک چھٹی کا دن ہے جو ہمیشہ سے تھا، ہے اور رہے گا اور یہ ہر خاندان کے لیے قابل تعظیم رہے گا۔ انہوں نے اس موقع پر دنیا کو ان غطیوں سے خبردار کیا جو دوسری عالمی جنگ کی وجہ بنیں: ’’انا پرستی، عدم برداشت، جارحانہ قوم پرستی اور منفرد ہونے کے دعوے۔‘‘
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
’روسی کارہائے نمایاں مٹائے نہیں جا سکتے‘
روسی اکثر یہ کہتا ہے کہ مغربی اتحادی نازی جرمنی کو شکست دینے میں روس کے کردار کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوٹن کے مطابق، ’’یورپ کو غلامی اور مکمل خاتمے کے خطرے اور ہولوکاسٹ کی دہشت سے بچانے میں ہماری افواج نے جو کردار ادا کیا آج لوگ ان کارناموں کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ روسی صدر نے خود کو روایتی یورپ کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
ہوشیار باش اسنائپرز
ریڈ اسکوائر پر صرف فوجی قوت کا ہی مظاہرہ نہیں ہوا بلکہ اس تمام کارروائی کے دوران ارد گرد کی عمارات پر ماہر نشانہ باز بھی بالکل ہوشیار باش تھے۔ ریڈ اسکوائر ماسکو کے وسط میں واقع ہے اور یہ روسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کریملن کا علاقہ ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
نئے ہتھیاروں کی نمائش
اس پریڈ کے دوران 159 کی تعداد میں فوجی ساز و سامان کی بھی نمائش کی گئی۔ ان میں میزائل سے مسلح ایک MiG-31 سپر سانک جیٹ بھی شامل تھا۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق زیادہ تر جدید ہتھیاروں کو شامی جنگ میں جانچا جا چکا ہے۔ نمائش کے لیے پیش کیے گئے اسلحے میں ڈرون، باردوی سرنگیں صاف کرنے والا روبوٹ اور انسان کے بغیر کام کرنے والا ٹینک بھی شامل تھا۔