1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

روس کی شرکت کے بغیر سعودی میزبانی میں یوکرین پر امن مذاکرات

4 اگست 2023

ان مذاکرات کا ایک مقصد سعودی ولی عہد کی طرف سے اپنی سلطنت کے سفارتی کردار کو ایک علاقائی طاقت کے طور پر مضبوط کرنا ہے۔ ان مذاکرات سے یوکرین میں امن کے لیے کوئی راستہ نکلنے کا امکان کم ہی ہے۔

32. Arabischen Gipfeltreffen in Saudi Arabien Mohammed bin Salman und Wolodymyr Selensky
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تصویر: SPA/dpa/picture alliance

سعودی عرب یوکرین کے حوالے سے پانچ اور چھ اگست کو اپنے بندرگاہی شہر جدہ میں کثیرالملکی مذاکرات کی میزبانی کرے گا۔ ان مذاکرات میں شرکت کے لیے تقریباً 30 ممالک کے حکام کو مدعو کیا گیا ہے۔ برکس ممالک یعنی برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ کے علاوہ دیگر ملکوں انڈونیشیا، میکسیکو، زیمبیا، مصر، برطانیہ، پولینڈ کی حکومتوں اور یورپی یونین کے نمائندوں نے اس بات چیت میں شرکت کی تصدیق کی ہے۔

زیلنسکی نے مئی کے مہینے میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھاتصویر: Saudi Press Agency/REUTERS

 یہ واضح نہیں ہے کہ آیا چین ان مذاکرات میں شرکت کرے گا یا نہیں۔ البتہ یوکرین تنازعے کے ایک مرکزی فریق روس کو اس ایونٹ میں شرکت کے لیے مدعو نہیں کیا گیا۔

ایک جرمن غیر سرکاری تنظیم کونراڈ آڈےناؤر فاؤنڈیشن کے مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے مشیر زیمون اینگلکیس نے کہا، ''یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سعودی عرب خود کو مذاکرات اور تنازعات کے حل کے لیے ایک محرک قوت کے طور پر دکھانا چاہتا ہے۔‘‘

 سعودی عرب روایتی طور پر ہمیشہ سے مغربی ممالک اور سب سے بڑھ کر امریکہ کا اتحادی رہا ہے، لیکن یہ ملک چین کے ساتھ ساتھ روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھتا ہے۔

پچھلے کچھ عرصے سے سعودی عرب کے مغرب کے ساتھ تعلقات زیادہ تر کشیدہ رہے  ہیں۔ اس کی وجوہات میں ملک میں مطلق العنان بادشاہت کی وجہ سے انسانی حقوق کی خراب صورتحال اور یمن کی جنگ میں سعودی عرب کا کردار ہے۔

استنبول میں سعودی قونصل خانے میں 2018 میں سعودی منحرف صحافی جمال خاشقجی کا قتل بھی مغرب کے ساتھ سلطنت کے تعلقات میں سرد مہری کی ایک وجہ ہے۔ مغرب کو شبہ ہے کہ اس قتل کا حکم ولی عہد محمد بن سلمان نے دیا تھا۔ اس معاملے نے شاہی خاندان کی ساکھ کو دیرپا نقصان پہنچایا ہے۔

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاووروف خلیج تعاون کونسل کے وزرا کے ہمراہ تصویر: Natalia Kolesnikova/AP

چونکہ سعودی عرب نے اب تک روس کے خلاف پابندیوں اور اس کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا فائدہ اٹھایا ہے، اس لیے یوکرین کی جنگ پر بات چیت کسی بھی اور چیز سے زیادہ اس کے لیے وقار کا مسئلہ ہو سکتی ہے۔

اینگلکیس نے کہا، '' ولی عہد ایک علاقائی طاقت کے طور پر مملکت کے سفارتی کردار کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات چیت کی ان مختلف کوششوں سے ظاہر ہوتا ہے، جن کے تحت وہ اپنے دیرینہ حریف ایران کے ساتھ ساتھ یمن میں بھی کشیدگی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

 'یوکرین کی حمایت'

روس کی عدم شرکت کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی کو بھی ان مذاکرات سے یوکرین کے لیے امن معاہدے کے حصول کی جانب حقیقی پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔ اس بات چیت میں شرکت کرنے والی بہت سی حکومتوں نے یوکرین کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی مذمت کی ہے لیکن روس کے خلاف کوئی واضح موقف اپنانے میں ناکام رہی ہیں اور نہ ہی انہوں نے روس کے خلاف پابندیوں میں حصہ لیا ہے۔

یہ مضمون پہلی بار جرمن زبان میں شائع کیا گیا تھا۔

 ش ر⁄ ع ا

روسی جارحیت کے جواب میں یوکرینی فوجی کارروائی کیسی چل رہی ہے؟

05:06

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں