روس کی طرف سے افغانستان کو اسلحہ جات کا تحفہ
24 فروری 2016روس کے اس اقدام کو ماسکو کی جنگ سے تباہ حال ملک میں گہری مداخلت کی ایک اور نشاندہی قرار دیا جا رہا ہے۔ مکمل طور پر غیر ملکی امداد پر توکل کرنے والی افغان فورسز ملک میں بڑھتی ہوئی بغاوت کے سبب امن کے قیام کے لیے تمام تر کوششیں کر رہی ہیں۔
گزشتہ برس جیسے ہی افغانستان سے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجی دستوں کی تعیناتی میں کمی اور ان کے انخلاء کا سلسلہ شروع ہوا ویسے ہی افغان لیڈروں نے ماسکو کی طرف رجوع کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جبکہ روس ہی وہ ملک ہے جو 1980ء کی دہائی میں خود جنگ لڑ چُکا ہے اور اس دوران زیادہ سے زیادہ روسی ساختہ اسلحہ جات، جن میں چھوٹے ہتھیار، آرٹلری اور حملہ آور ہیلی کاپٹر شامل ہیں زیر استعمال رہے۔
بُدھ کو روس کی طرف سے اسلحہ جات کا تحفہ وصول کرنے پر افغانستان کی نیشنل سکیورٹی کے مشیر حنیف اتمر کا کہنا تھا،’’یہ عطہ دونوں قوموں کے مابین مضبوط اور گہری دوستی کی علامت ہے۔ یہ افغانستان کے ایک اہم ساتھی ملک کی طرف سے افغانستان اور پورے خطے کے لیے نہایت اہم وقت میں دیا گیا اہم ترین ہدیہ ہے۔‘‘
حنیف اتمر نے مزید کہا کہ ماسکو کی طرف سے مہیا کیے جانے والے یہ ہتھیار دونوں ممالک کے مابین موجود ایک اہم سکیورٹی معاہدے کے تحت باہم پہنچائے گئے ہیں۔ اس موقع پر روسی سفیر الکسزانڈر مانٹیٹسکی نے کابل میں موجود سکیورٹی اور ملٹری آفیسروں کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا ملک دوست ملک افغانستان کے ساتھ انسداد منشیات اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جاری جنگ میں زیادہ سے زیادہ تعاون اور امداد کا خواہاں ہے۔
بُدھ کو روس کی طرف سے افغانستان کو اس مقدار میں اسلحے کی فراہمی ایک ایسے وقت میں عمل میں لائی گئی جب ماسکو حکام نے کھلے الفاظ میں یہ کہا کہ وہ افغانستان میں واشنگٹن کی پالیسیوں کی ناکامی سے سخت مایوس ہیں اور اب اُن کے صبر کا پیمانہ لبزریز ہو گیا ہے۔
امریکی قیادت میں افغانستان میں سرگرم غیر ملکی فورسز میں کبھی شامل نہ رہنے والا ملک روس گرچہ سالوں امریکی ملٹری سپلائی کے لیے اپنے علاقوں کی گزرگاہ پیش کرتے ہوئے امریکا کے ساتھ تعاون کرتا رہا ہے۔ اس تعاون میں اسلحہ جات کی فراہمی اور انسداد منشیات جیسے شعبے کا تعاون بھی شامل ہے۔
روس اور امریکا کے باہمی تعلقات اور مذکورہ تعاون کو سب سے زیادہ نقصان واشنگٹن اور ماسکو کی شام اور یوکرائن کے بحران سے متعلق پالیسیوں کے احتلاف سے پہنچا۔ روس کے جوٹی کے حکومتی اہلکاروں نے طویل عرصے سے افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی سے تنگ آکر کابل حکومت کے ساتھ ساتھ طالبان کے ساتھ روابط بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔