1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس کی پاکستان کو تیل اور گیس کی فروخت: چیلنجز کیا ہیں؟

17 اکتوبر 2023

پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات میں تنوع پیدا کر رہا ہے اور حال ہی میں روس سے درآمد شدہ گیس اور تیل سے اُس طبقے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، جس کا ماننا ہے کہ یہ درآمدی اشیاء سستی ہیں۔ تاہم ماہرین کے اندیشے کچھ اور ہیں۔

Pakistan Karachi | Erdöl aus Russland
تصویر: Karachi Port Trust/AP/picture alliance

گزشتہ ماہ پاکستان میں روسی سفارت خانے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر یہ خبر عام کی کہ اسلام آباد کو مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی پہلی کھیپ روس سے موصول ہوئی ہے۔ اس پیغام میں مزید کہا گیا کہ ماسکو نے ایران کے 'سرخس اسپیشل اکنامک زون‘ کے ذریعے ایک لاکھ میٹرک ٹن مائع پیٹرولیم گیس پاکستان پہنچائی ہے۔ اس سال جون میں پاکستان کو دو کھیپوں کے ذریعے 45 ہزار میٹرک ٹن اور 56 ہزار ٹن روسی خام تیل فراہم کیا گیا۔

اُس وقت وزیر اعظم شہباز شریف تھے، جنہوں نے روسی خام تیل کی درآمد کو اپنے ملک کے لیے '' تبدیلی کا دن‘‘ قرار دیا تھا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا،''میں نے اپنی قوم سے کیا ہوا ایک اور وعدہ پورا کر دکھایا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے روس کی پہلی تیل کارگو سپلائی ہے جبکہ یہ پاکستان اور روسی فیڈریشن کے مابین نئے تعلقات کا آغاز ہے۔‘‘

تاہمپاکستان  کے ایک حلقے کا خیال ہے کہ ملک کی نئی اور پرانی انتظامیہ کی اُمیدیں جتنی حقیقت پسندانہ نظر آتی ہیں، اتنی ہیں نہیں۔ کچھ پاکستانیوں کا خیال ہے کہ اس طرح کی درآمدات اسلام آباد کے لیے سیاسی مسائل پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ڈالرز کی کمی کا شکار پاکستانی معیشت کے لیے کئی چیلنجز کا باعث بن سکتی ہیں۔

 انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ بڑی آئل ریفائنریز ہیں، جن کی مشترکہ پیداواری گنجائش 417000 بیرل یومیہ سے کچھ زیادہ ہے۔ لیکن یہ ریفائنریز اپنی نصف صلاحیت کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔

تکنیکی مسائل

پاکستان عرب ممالک سے تیل اور گیس درآمد کرتا رہا ہے اور خلیج سے ان درآمدات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی پاکستان کا ٹیکنیکل انفراسٹرکچر بنایا گیا تھا۔ کچھ اندازوں کے مطابق  روسی خام تیل کی قیمت 60 ڈالر فی بیرل ہے اور خلیجی خام تیل کی  84 ڈالر فی بیرل لیکن اس سستے خام تیل یا گیس کی سپلائی کے پیچھے بہت سی رکاوٹیں ہیں۔

پاکستان کو گیس کی فراہمی ممکن، صدر پوٹن

00:58

This browser does not support the video element.

اسلام آباد میں مقیم ایک تجزیہ کار رانا ابرار خالد کا خیال ہے کہ پاکستان کے پاس روسی خام تیل کو ریفائن کرنے کے لیے اتنی تکنیکی صلاحیت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں،'' ہماری ریفائنریز خلیج سے درآمد کیے جانے والے ہلکے خام تیل کو ریفائن کر سکتی ہیں۔‘‘ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ روسی تیل بھاری ہے، جسے پاکستانی ریفائنریوں کے پاس موجود ٹیوبوں کے ذریعے آسانی سے پروسیس نہیں کیا جا سکتا۔ رانا ابرار کے بقول،''ہم نے روسی خام بھاری تیل کو خلیج سے ہلکے خام تیل کے ساتھ ملانے کی کوشش کی لیکن یہ تجربہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوا۔‘‘

مالی مسائل

مغرب اور خاص طور سے امریکہ نے ماسکو پر متعدد پابندیاں عائد کی ہیں، جن کی وجہ سےپاکستان  جیسے ممالک کے لیے زمین کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک کے ساتھ تجارت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ابرار خالد کا خیال ہے کہ پاکستانی کمپنیاں یا حکومت 'سویفٹ سسٹم‘ کے ذریعے ادائیگیاں نہیں کر سکتی۔ روس کے پاس ادائیگی کا اپنا طریقہ کار ہے لیکن پاکستان اس پر عمل کرنے سے قاصر ہے۔

ایک اور اہم تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان کو روسی تیل اور گیس کی صحیح قیمت آئی ایم ایف کو بتانا ہو گی لیکن ملک کی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر اس تاثر کو زائل کر دیتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو  سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے معاہدے میں ایسی کوئی شرط شامل نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے پاس تمام ادائیگیوں کے لیے کافی لیکویڈیٹی موجود ہے۔ ادائیگی کے طریقہ کار پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے روس کا نام لیے بغیر کہا،''تیل اور گیس سمیت درآمدات کی تمام ادائیگیاں ڈالر میں کی جاتی ہیں۔‘‘

سیاسی مسائل

 پاکستان واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر رہا ہے۔ اسلام آباد کو حالیہ مہینوں میں آئی ایم ایف پیکج ملا نیز یہ ملک  عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر علاقائی و عالمی مالیاتی اداروں سے بھی قرضے حاصل کر رہا ہے۔

 پاکستان میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے لیے اس طرح کی مالی امداد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی ماہر ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن تیل اور گیس کے ان معاہدوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

 پاکستان سے ایسے معاہدوں کی تفصیلات کے بارے میں کیے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فاطمہ کا کہنا تھا،'' امریکہ کو خدشہ ہے کہ اس طرح کے سودے پاکستان کو ماسکو کے قریب لا سکتے ہیں۔ اگر ہم روس کے قریب آتے ہیں یا ماسکو کے ساتھ تجارت کرتے ہیں تو امریکہ کبھی خوش نہیں ہو گا۔ لیکن ہمیں امریکی دباؤ پر توجہ دینے کی بجائے اپنے قومی مفادات کو ترجیح دینی چاہیے۔‘‘

تاہم کچھ ماہرین یہ خدشات بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر پاکستان روس کے قریب ہوتا ہے یا ماسکو سے تیل اور گیس کی خریداری جاری رکھتا ہے تو واشنگٹن اس ملک پر بالواسطہ پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔

(ایس خان) ک م/ اا

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں