روس کے اب تک چھیالیس ہزار سے زائد فوجی ہلاک، یوکرینی دعویٰ
27 اگست 2022
یوکرینی مسلح افواج نے دعویٰ کیا ہے کہ چھ ماہ سے بھی زائد عرصے سے جاری روسی یوکرینی جنگ میں اب تک ماسکو کے چھیالیس ہزار سے زائد فوجی مارے جا چکے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں یوکرینی فوج کے نو ہزار فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
اشتہار
یوکرینی دارالحکومت کییف سے ہفتہ ستائیس اگست کے روز ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یوکرینی مسلح افواج کے جنرل سٹاف نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں بتایا کہ 24 فروری کو شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک ماسکو کی مسلح افواج کو پہنچنے والے جانی نقصان کا مجموعہ 46 ہزار 550 فوجی بنتا ہے۔ اس پوسٹ میں کہا گیا کہ صرف جمعہ 26 اگست کے روز ہی روسی مسلح افواج کے مزید 250 ارکان مارے گئے۔
ایک یوکرینی فوجی کے مقابلے میں پانچ روسی فوجیوں کی ہلاکت
اس جنگ میں فریقین کو پہنچنے والے جانی نقصان کا موازنہ کرتے ہوئے کییف میں ملکی افواج کے جنرل سٹاف کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ اس تنازعے میں اب تک مجموعی طور پر یوکرین کے بھی تقریباﹰ نو ہزار فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیکن اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ یوکرین کے ہر ایک فوجی کی ہلاکت کے مقابلے میں روس کو اب تک اپنے پانچ سے زائد فوجیوں کی ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
کییف میں ملکی فوج کی قیادت کے مطابق ماسکو کی افواج کو اس جنگ میں پہنچنے والا مادی نقصان بھی بہت زیادہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس جنگ میں روس اب تک اپنے تقریباﹰ دو ہزار ٹینکوں سے محروم ہو چکا ہے جبکہ اس کی ایک ہزار سے زائد توپیں اور کئی سو ڈرونز بھی ناکارہ بنائے جا چکے ہیں۔
یوکرینی فوج نے کہا ہے کہ ماسکو اپنا فوجی جانی نقصان بہت کم بتاتا ہے حالانکہ اس کے ساڑھے چھیالیس ہزار سے زائد فوجیوں کی ہلاکت کے علاوہ 1940 ٹنیک، 1045 آرٹلری سسٹم، 836 ڈرونز اور 3165 فوجی گاڑیاں بھی تباہ ہو چکی ہیں۔
اشتہار
برطانوی وزیر دفاع کا موقف
یوکرینی فوج کے ان دعووں کی ڈی ڈبلیو اپنے طور پر تو تصدیق نہیں کر سکا تاہم اسی بارے میں برطانوی وزیر دفاع بین ویلیس کا ایک حالیہ بیان بھی کافی اہم ہے۔ ویلیس نے ایک برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر روسی فوج کو پہنچنے والے جانی نقصان، زخمی فوجیوں کی تعداد اور جنگ کے دوران بھگوڑے ہو جانے والے سپاہیوں کو بھی شامل کیا جائے، تو یہ تعداد تقریباﹰ 80 ہزار بنتی ہے۔
بین ویلیس کے مطابق روس کے لیے فوجی نفری کا یہ ہوش ربا نقصان اس لیے بہت زیادہ ہے کہ افغانستان میں سوویت دور میں تقریباﹰ ایک دہائی تک جاری رہنے والی مسلح مداخلت کے دوران موجودہ روس کی پیش رو ریاست سوویت یونین کے تقریباﹰ 15 ہزار فوجی مارے گئے تھے۔
اس سے قبل امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے بھی اسی ہفتے لکھا تھا کہ روسی یوکرینی جنگ میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران تقریباﹰ 25 ہزار روسی فوجی مارے جا چکے ہیں۔
اسی دوران قوام متحدہ نے اپنے ذرائع سے حاصل کردہ اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے اسی ہفتے کہا تھا کہ یوکرین پر روسی فوجی حملے کے ساتھ شروع ہونے والی جنگ گزشتہ چھ ماہ کے عرصے میں یوکرین میں ساڑھے پانچ ہزار سے زائد شہری ہلاکتوں کی وجہ بھی بن چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس جنگ کے دوران مارے جانے والے یوکرینی سویلین باشندوں کی مصدقہ تعداد 5587 بنتی ہے تاہم یہ امکان بھی اپنی جگہ ہے کہ ایسی شہری ہلاکتوں کی حقیقی تعداد اس مصدقہ تعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
م م / ش ح (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی ہی اے)
روسی افواج کا ماریوپول پر نیا حملہ
روسی افواج نے یوکرینی ماریوپول شہر کے نواح میں واقع ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب ایک نئی جنگی کارروائی شروع کر دی ہے۔ روسی فورسز ماریوپول کی طرف سست مگر پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
ماریوپول کی طرف پیش قدمی
روسی فوج نے یوکرین کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں نئے حملوں کا آغاز کر دیا ہے۔ بالخصوص ماریوپول کے نواح میں واقع ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب ایک نئی جنگی کارروائی خونریز ثابت ہو رہی ہے، جہاں ایک ہی دن کی گئی کارروائی کے نتیجے میں اکیس شہری ہلاک جبکہ اٹھائیس زخمی ہو گئے۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
ازووِسٹال سٹیل پلانٹ نشانہ
روسی فورسز نے ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب بلاتفریق شیلنگ کی ہے۔ مشرقی دونستک ریجن میں اس روسی کارروائی کی وجہ سے بے چینی پھیل گئی ہے۔ یہ پلانٹ اب کھنڈر دیکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
قریبی علاقے بھی متاثر
ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریبی علاقوں میں بھی تباہی دیکھی جا سکتی ہے۔ مقامی افراد اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ روسی فوج کی شیلنگ کی وجہ سے شہری بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ بھرپور طاقت کے استعمال کے باوجود روسی افواج ابھی تک اس علاقے میں داخل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
لوگوں کا انخلا جاری
روسی حملوں کے بیچ ماریوپول سے شہریوں کا انخلا بھی جاری ہے۔ تاہم سکیورٹی خطرات کی وجہ سے اس عمل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صورتحال ایسی ہے کہ کچھ پتہ نہیں کہ کب وہ روسی بمباری کا نشانہ بن جائیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
آنسوؤں کے ساتھ ہجرت
یوکرینی نائب وزیر اعظم نے ماریوپول کے مقامی لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ انہیں محفوظ علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔ ان کے مطابق شہریوں کے تحفظ اور ان کی محفوظ مہاجرت کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا ہے، جس کے تحت لوگوں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکالا جا رہا ہے۔
تصویر: Francisco Seco/AP/dpa/picture alliance
جانے والے پیچھے رہ جانے والوں کی فکر میں
نئے حکومتی منصوبے کے تحت اسی ہفتے پیر کے دن 101 شہریوں کو ماریوپول سے نکال کر قریبی علاقوں میں منتقل کیا گیا۔ ان میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ علاقوں میں جانے والے البتہ اپنے پیاروں سے بچھڑ کر اداس ہی ہیں۔ زیادہ تر مرد ملکی فوج کے ساتھ مل کر روسی فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Francisco Seco/AP/picture alliance
یوکرینی فوج پرعزم
روسی فوج کی طرف سے حملوں کے باوجود یوکرینی فوجیوں کا کہنا ہے کہ ان کے حوصلے بلند ہیں۔ مغربی ممالک کی طرف سے ملنے والے اسلحے اور دیگر فوجی سازوسامان کی مدد سے وہ روسی پیش قدمی کو سست بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ یوکرینی فوجی جنگ کے ساتھ ساتھ شہریوں کے محفوظ انخلا کے لیے بھی سرگرداں ہیں۔
تصویر: Peter Kovalev/TASS/dpa/picture alliance
روس نواز جنگجوؤں کی کارروائیاں
ماریوپول میں روس نواز مقامی جنگجو بھی فعال ہیں، جو یوکرینی افواج کے خلاف برسرپیکار ہیں۔BM-21 گراڈ راکٹ لانچ سسٹم سے انہوں نے ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب حملے کیے، جس کی وجہ سے املاک کو شدید نقصان ہوا۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
روسی فوج کے اہداف نامکمل
چوبیس فروری کو شروع ہونے والی جنگ میں اگرچہ روسی افواج نے یوکرین کے کئی شہروں کو کھنڈر بنا دیا ہے تاہم وہ اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ روسی فوج نے شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس میں ماریوپول کا یہ اسکول بھی شامل ہے، جو روسی بمباری کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔
تصویر: Alexei Alexandrov/AP/picture alliance
ماریوپول کھنڈر بن گیا
روسی جارحیت سے قبل یوکرینی شہر ماریوپول کی آبادی تقریبا چار لاکھ تھی۔ یہ شہر اب کھنڈر بن چکا ہے۔ روسی فوج کی کوشش ہے کہ اس مقام پر قبضہ کر کے یوکرین کا بحیرہ اسود سے رابطہ کاٹ دیا جائے۔ اسی سمندری راستے سے یوکرین کو خوارک اور دیگر امدادی سامان کی ترسیل ہو رہی ہے۔