یورپی یونین نے یوکرین اور مالڈووا کو امیدوار کا درجہ دے دیا
24 جون 2022
یورپی یونین کے رہنماؤں نے یوکرین اور مالڈووا کو بلاک کی رکنیت کے امیدواروں کی حیثیت سے ترقی دینے کے حق میں ووٹ کیا ہے۔ تاہم، یورپی معیارات کو اپنانے اور اصلاحات کے ساتھ بلاک میں شامل ہونے میں انہیں اب بھی برسوں لگیں گے۔
اشتہار
یورپی یونین کے رہنماؤں نے 23 جون جمعرات کے روز یوکرین اور مالڈووا کو بلاک کی رکنیت کے لیے باضابطہ طور پر امیدوار کی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا۔ یورپی یونین کے تمام 27 رکن ممالک کے رہنماؤں کے درمیان بات چیت کے بعد اس فیصلے کا اعلان یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے کیا۔
روس کی جانب سے 24 فروری کو حملے کے بعد سے یورپی یونین بڑی حد تک یوکرین کی حمایت میں متحد رہی ہے اور اس نے ماسکو کے خلاف بے مثال اقتصادی پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔ روس کی طرف سے جنگ شروع کرنے کے محض چار دن بعد ہی یوکرین نے یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تھی۔
یورپی یونین کے رکن ممالک ابتدا میں اس بات پر منقسم تھے کہ آخر بلاک کو کتنی جلدی یوکرین کو بطور رکن قبول کر لینا چاہیے۔ خاص طور پر نیدرلینڈ، سویڈن اور ڈنمارک اس حوالے سے سب سے زیادہ شکوک و شبہات میں مبتلا تھے۔
تاہم یوکرین کی اس کوشش کو گزشتہ ہفتے اس وقت تقویت ملی، جب یورپی کمیشن نے اپنے سوالوں سے متعلق کییف کے جوابات کی بنیاد پر اس کی توثیق کر دی تھی۔
زیلنسکی نے فیصلے کا خیر مقدم کیا
یوکرین کے صدر وولودمیر زیلنسکی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے 27 ممالک کے بلاک کے ساتھ تعلقات میں ''ایک منفرد اور تاریخی لمحہ'' قرار دیا۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''یوکرین کا مستقبل یورپی یونین میں ہے۔''
مالڈووا کی صدر مایا سائنڈو نے اس حوالے سے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا کہ یہ فیصلہ ''مالڈووا اور ہمارے عوام کی حمایت کا ایک مضبوط اشارہ ہے۔''
یورپی یونین کے رہنماؤں نے کیا کہا؟
جرمن چانسلر اولاف شولس نے اپنی ایک ٹویٹ میں ان دونوں ممالک کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے لکھا، ''یورپی کونسل، یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیے دو نئے امیدوار ممالک کا خیر مقدم کرتی ہے۔ یہاں یورپی خاندان میں اچھا تعاون ہے۔''
یوروپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے کہا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ یوکرین اور مالڈووا مکمل رکنیت حاصل کرنے کے لیے جو ضروری اصلاحات نافذ کرنی ہیں اس پر جتنی جلدی ممکن ہو سکے آگے بڑھیں گے۔
انہوں نے کہا، ''مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارا فیصلہ، جو ہم نے آج کیا ہے، وہ ہم سب کو مضبوط کرتا ہے۔''
یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے بھی اپنے ایک ٹویٹ پیغام اسے ایک ''تاریخی لمحہ'' قرار دیا۔ انہوں نے دنوں ممالک سے کہا، ''یورپی یونین کی رکنیت کی جانب آپ کے سفر کا آج ایک بہت اہم قدم ہے۔''
اشتہار
شمالی مقدونیہ اور البانیہ پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا
یورپی یونین کے رہنماؤں نے جمعرات کے روز یورپی کمیشن کی طرف سے یوکرین سے متصل ملک مالڈووا کو امیدوار کا درجہ دینے کی تو سفارش کر دی۔ تاہم یورپی رہنما شمالی مقدونیہ اور البانیہ کی رکنیت سے متعلق درخواستوں پر تعطل کو توڑنے میں ناکام رہے۔
دونوں ممالک کو بالترتیب 2005 اور 2014 میں امیدوار کی حیثیت کا درجہ دیا گیا تھا۔ تاہم اس پر کوئی پیش رفت نہ ہونے پر شمالی مقدونیہ کے وزیر اعظم دیمتر کووایسوسکی نے اپنے رد عمل میں کہا، ''جو کچھ ہوا ہے وہ یورپی یونین کی ساکھ کے لیے ایک سنگین دھچکا ہے۔''
برسلز میں سربراہی اجلاس سے قبل جرمن چانسلر اولاف شولس نے کہا، ''تقریباً 20 برسوں سے مغربی بلقان کے ممالک اور شہری یورپی یونین کا رکن بننے کے موقع کا انتظار کر رہے ہیں۔'' انہوں نے کہا کہ شمالی مقدونیہ نے تو یورپی یونین میں شمولیت کی اپنی خواہشات کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا نام تک تبدیل کر لیا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)
کریمیا کا بحران: روسی اقدام اور اُس کے نتائج
روس اور کریمیا کی ماسکو نواز حکومت نے بڑی ہی تیز رفتاری کے ساتھ اس جزیرہ نما کو وفاق روس کا حصہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس روسی اقدام کو بھی برسلز میں منعقدہ یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس میں زیر بحث لایا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس اور یوکرائن
یورپی یونین کی برسلز میں منعقدہ سربراہ کانفرنس میں روس کے خلاف مزید پابندیوں کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جمعہ اکیس مارچ کو ختم ہونے والی اس دو روزہ سربراہ کانفرنس میں یورپی یونین نے کریمیا میں روسی اقدام کے خلاف ایک تعزیری اقدام کے طور پر روس کے ساتھ اپنی اگلی سربراہ کانفرنس منسوخ کرنے کا بھی اعلان کیا۔
تصویر: REUTERS
عزائم پر برق رفتاری سے عملدرآمد
روس نے بحیرہء اسود کے جزیرہ نما کریمیا پر اپنی عسکری قوت بڑھانا شروع کر دی ہے۔ بدھ اُنیس مارچ کو روس نواز قوتوں نے یوکرائن کے کئی ایک فوجی اڈوں پر کنٹرول حاصل کر لیا، جیسے کہ مثلاً بندرگاہی شہر سیواستوپول میں، جہاں یہ تصویر اتاری گئی۔
تصویر: Reuters
آئین سے ہم آہنگ اقدام
ایک جانب روسی فوجی پیریوالنوئے میں واقع پوکرائن کے فوجی اڈے میں داخل ہو رہے تھے، دوسری طرف روسی آئینی عدالت کریمیا کو وفاق روس کا حصہ بنانے کے معاہدے کو آئین سے ہم آہنگ قرار دے رہی تھی۔ بین الاقوامی سطح پر اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا جا رہا تاہم روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اس معاہدے پر اٹھارہ مارچ منگل کو ہی اپنے دستخط ثبت کر دیے تھے۔ روسی پارلیمان کے دونوں ایوان بھی اس کی توثیق کر چکے ہیں۔
تصویر: Dan Kitwood/Getty Images
خاموش پسپائی
خبر رساں اداروں کے مطابق یوکرائن کے ایک میجر نے یہ بتایا کہ ’روسی فوجی یہاں پہنچ گئے اور اُنہوں نے ہم سے یہ اڈہ چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا‘۔ اس تصویر میں ایک فوجی افسر نوووسیرنے کے اڈے سے جاتا نظر آ رہا ہے۔ اگرچہ یوکرائن نے کریمیا سے اپنے فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا ہے لیکن کہا ہے کہ فوج کو چوکنا رہنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔
تصویر: FILIPPO MONTEFORTE/AFP/Getty Images
شاندار ہال میں متاثر کن آمد
اٹھارہ مارچ کو ولادیمیر پوٹن نے کریملن کے شاندار گیورگ ہال میں ایوانِ زیریں دُوما کے نمائندوں اور روسی وفاق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کریمیا کو روس کا ’اٹوٹ انگ‘ قرار دیا اور مغربی دنیا پر الزام عائد کیا کہ اُس نے یوکرائن میں ’ایک سرخ لائن‘ عبور کی ہے۔
تصویر: Reuters
پہلے بیانات اور فوراً بعد عملی اقدامات
پوٹن کے بیانات کے فوراً بعد عملی اقدامات شروع کر دیے گئے۔ کریملن میں ایک شاندار تقریب میں روس میں کریمیا کی شمولیت کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس تصویر میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ساتھ کریمیا کی ماسکو نواز حکومت کے سربراہ سیرگئی آکسیونوف (انتہائی بائیں جانب)، کریمیا کی پارلیمان کے ترجمان ولادیمیر کونسٹانٹینوف (بائیں سے دوسرے) اور سیواستوپول کے میئر الیکسی شالی (دائیں) نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
امیدیں اور توقعات
کریمیا میں ایک ساتھ مایوسی بھی ہے اور جشن بھی۔ جہاں یوکرائن کے فوجی اور اُن کے اہلِ خانہ اس جزیرہ نما سے رخصت ہو رہے ہیں، وہاں کریمیا کے دیگر باسی روسی کے ساتھ الحاق کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ سیواستوپول میں جمع ایک روس نواز شہری نے کہا، ’مجھے یقین ہے کہ ہماری زندگی بہتر ہو جائے گی‘۔
تصویر: Reuters
الحاق کی حمایت میں تالیاں
کریمیا میں سینکڑوں افراد نے کریمیا کو روس کا حصہ بنانے سے متعلق پوٹن کی تقریر کو سنا اور خوشی اور جوش و جذبے کے ساتھ تقریر کے بعد ہونے والے آتش بازی کے مظاہرے کو دیکھا۔ اس تصویر میں لوگ کریمیا کے شہر زیمفروپول میں بڑی اسکرین پر یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔ اتوار سولہ مارچ کو ہونے والے ریفرنڈم میں کریمیا کے 97 فیصد شہریوں نے روس کے ساتھ الحق کے حق میں رائے دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
قوم کی رَگ پر ہاتھ
پوٹن نے کریمیا میں پیش قدمی کرتے ہوئے غالباً روسی عوام کے ایک حصے کے دلی خواہش پوری کر دی ہے۔ قوم کے نام پوٹن کے خطاب کے بعد متعدد شہروں میں اُن کے لاکھوں حامی جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ماسکو میں اتری اس تصویر میں بھی پوٹن کے حامی جشن مناتے نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: DMITRY SEREBRYAKOV/AFP/Getty Images
’میدان‘ کے سرگرم کارکن
یوکرائن کے دارالحکومت کییف کا مرکزی علاقہ ’میدان‘ گزشتہ کئی مہینوں سے صدر وکٹر یانوکووچ کی حکومت کے خلاف جدوجہد کا مرکز بنا رہا۔ اُس روز بھی، جس روز کریمیا کی یوکرائن سے علیحدگی یقینی نظر آ رہی تھی، اس مقام پر لوگ جمع تھے۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
یورپی یونین میں شمولیت کی جانب ایک قدم
’میدان‘ میں چند مہینے پہلے کا ایک منظر، جس میں ’یورپی مستقبل کے لیے‘ نامی تحریک کے کارکن یورپی یونین میں یوکرائن کی شمولیت کے موضوع پر ایک ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اب یہ منزل قریب آ گئی ہے۔ برسلز منعقدہ یورپی یونین سربراہ کانفرنس کے موقع پر یونین اور یوکرائن کے درمیان قریبی تعاون کے علامتی اعتبار سے ایک نہایت اہم سمجھوتے پر دستخط ہوئے ہیں۔