1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’روس نیٹو پر جب چاہے محدود حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘

جاوید اختر روئٹرز کے ساتھ
7 نومبر 2025

ایک اعلیٰ جرمن فوجی عہدیدار نے خبردار کیا ہے کہ روس کے پاس کسی بھی وقت نیٹو کے علاقے پر محدود حملہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے، تاہم کارروائی کا فیصلہ مغربی اتحادیوں کے ردِعمل پر منحصر ہو گا۔

روس کا جنگی طیارہ سخوئی 30
جرمن جنرل سولفرانک کے مطابق یوکرین میں ناکامیوں کے باوجود روس کی فضائیہ کے پاس اب بھی قابلِ ذکر جنگی طاقت ہےتصویر: ra3rn/IMAGO

لیفٹیننٹ جنرل الیگزینڈر سولفرانک نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ''اگر آپ روس کی موجودہ صلاحیتوں اور جنگی طاقت کو دیکھیں تو روس کل ہی سے نیٹو کے علاقے پر ایک محدود پیمانے کا حملہ شروع کر سکتا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''یہ کوئی بڑا حملہ نہیں ہو گا، چھوٹا، تیز اور علاقائی سطح تک محدود رہے گا۔ روس اس وقت یوکرین میں بری طرح مصروف ہے، اس لیے بڑے حملے کا امکان نہیں۔‘‘

سولفرانک، جو جرمنی کے مشترکہ آپریشنز کمانڈ کے سربراہ ہیں اور دفاعی منصوبہ بندی کی نگرانی کرتے ہیں، نے یہ بھی کہا کہ اگر روس نے اپنے اسلحہ سازی کے منصوبے جاری رکھے، تو وہ ممکنہ طور پر 2029 تک نیٹو پر ایک بڑے پیمانے کا حملہ کرنے کی پوزیشن میں ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا انتباہ ہے جو نیٹو کے اپنے خدشات سے میل کھاتا ہے۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے ان الزامات کی تردید کی کہ ان کے ملک کے عزائم جارحانہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2022 میں یوکرین پر روس کا مکمل حملہ دراصل نیٹو کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے دفاع میں کیا گیا اقدام تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل الیگزینڈر سولفرانک (بائیں) جرمنی کے مشترکہ آپریشنز کمانڈ کے سربراہ اور دفاعی منصوبہ بندی کی نگران ہیںتصویر: Frederic Kern/Geisler-Fotopress/picture alliance

روس کے پاس حملے کی صلاحیت اب بھی موجود

برلن کے شمالی حصے میں واقع اپنے ہیڈکوارٹرز، جو ایک وسیع فوجی بیرک ہے، میں گفتگو کرتے ہوئے سولفرانک نے کہا کہ یوکرین میں ناکامیوں کے باوجود روس کی فضائیہ اب بھی قابلِ ذکر جنگی طاقت رکھتی ہے، اور اس کے ایٹمی اور میزائل دستے بدستور مکمل طور پر فعال ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل الیگزینڈر سولفرانک نے کہا کہ اگرچہ بحیرۂ اسود کے بحری بیڑے کو نمایاں نقصان پہنچا ہے، لیکن روس کے دیگر بیڑے متاثر نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا، ''زمینی افواج کو نقصان ضرور ہوا ہے، لیکن روس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کل فوجی اہلکاروں کی تعداد 15 لاکھ تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘

سولفرانک نے مزید کہا، ''روس کے پاس اتنے اہم جنگی ٹینک موجود ہیں کہ ایک محدود حملے کا تصور کل ہی ممکن ہو سکتا ہے، اگرچہ انہوں نے واضح کیا کہ فی الحال ایسا کوئی حملہ زیر غور نہیں ہے۔‘‘

سولفرانک 2024 میں قائم کیے گئے جرمنی کے مشترکہ آپریشنز کمانڈ کے سربراہ ہیں۔ اس کمانڈ کا قیام ایک بڑی حکمتِ عملی تبدیلی کی علامت تھا۔ یعنی افغانستان یا مالی جیسے بیرونی مشنز سے ہٹ کر اب توجہ نیٹو کے اپنے علاقے کے دفاع پر مرکوز کرنا۔

جرمن فوجی رہنما کے مطابق اگر روس نے اپنے اسلحہ سازی کے منصوبے جاری رکھے، تو وہ ممکنہ طور پر 2029 تک نیٹو پر ایک بڑے پیمانے کا حملہ کرنے کی پوزیشن میں ہو سکتا ہےتصویر: dts Nachrichtenagentur/IMAGO

نیٹو کے خدشات

حال ہی میں پولینڈ کی فضائی حدود میں روسی ڈرونز کی دراندازیوں نے مغربی ممالک میں روسی جارحیت کے خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

اسی سال کے اوائل میں برلن نے اپنی آئینی قرض کی حد میں نرمی کی تاکہ وہ نیٹو کے نئے فوجی اخراجات کے ہدف، یعنی 2029 تک قومی پیداوار کا 3.5 فیصد، کو پورا کر سکے۔ اس اقدام سے دفاعی بجٹ 2025 میں 100 ارب یورو سے بڑھ کر 2029 میں تقریباً 160 ارب یورو (187 ارب ڈالر) تک پہنچ جائے گا۔

اس کے علاوہ، جرمنی نے اپنی مسلح افواج میں 60,000 مزید اہلکار شامل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جس سے کل فوجی نفری تقریباً دو لاکھ ساٹھ ہزار تک پہنچ جائے گی۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ ان کے ملک کے عزائم جارحانہ ہیںتصویر: Sergei Karputkin/TASS/IMAGO

روس کب حملہ کر سکتا ہے؟

لیفٹیننٹ جنرل الیگزینڈر سولفرانک نے کہا کہ یہ فیصلہ کہ آیا ماسکو نیٹو پر حملہ کرنے کا انتخاب کرے گا یا نہیں، تین عوامل پر منحصر ہو گا۔ یہ ہیں روس کی فوجی طاقت، اس کی جنگی کارکردگی، اور اس کی قیادت۔

انہوں نے کہا کہ یہ تینوں عوامل مجھے اس نتیجے پر پہنچاتے ہیں کہ روسی حملہ ممکنات کے دائرے میں ہے۔ لیکن ''یہ ہوگا یا نہیں، یہ بڑی حد تک ہمارے اپنے طرزِ عمل پر منحصر ہے۔‘‘

انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ نیٹو کی مزاحمتی حکمتِ عملی اس میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔

جنرل نے اس بات پر زور دیا کہ ماسکو کی ہائبرڈ جنگی حکمتِ عملی، جس میں ڈرون حملے اور دراندازیاں شامل ہیں، کو ایک مربوط حکمتِ عملی کا حصہ سمجھنا چاہیے، جس میں یوکرین کی جنگ بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا، ''روسی اسے 'نان لینیئر وار فیئر‘ کہتے ہیں۔ ان کے نظریے کے مطابق، یہ وہ جنگ ہے جو روایتی ہتھیاروں کے استعمال سے پہلے لڑی جاتی ہے۔ اور جب وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دیتے ہیں، تو یہ دراصل خوف اور دباؤ کے ذریعے جنگ ہے۔‘‘

سولفرانک نے مزید کہا کہ روس کا مقصد نیٹو کو مشتعل کرنا اور اس کے ردِعمل کا اندازہ لگانا ہے، تاکہ وہ ''غیر یقینی کی فضا پیدا کرے، خوف پھیلائے، نقصان پہنچائے، جاسوسی کرے، اور اتحاد (نیٹو) کی مزاحمتی صلاحیت کو پرکھے۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں