روس یورپ میں امن کے لیے بڑا خطرہ ہے، جرمن آرمی چیف کی تنبیہ
20 اپریل 2019
وفاقی جرمن فوج کے سربراہ جنرل ایبرہارڈ سورن نے تنبیہ کی ہے کہ روس یورپ میں امن کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ جنرل سورن نے کریمیا اور یوکرائن کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ کئی زمینی حقائق ان کے اس موقف کی تصدیق کرتے ہیں۔
اشتہار
وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے ہفتہ بیس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی کی فیڈرل آرمی کے چیف آف سٹاف نے یہ باتیں اپنے ایک ایسے انٹرویو میں کہیں، جس کی تفصیلات آج ہفتے کے روز ایک بڑے جرمن میڈیا گروپ کے اخبارات اور جرائد میں شائع ہوئیں۔
جرمن فوج کے ساٹھ سال
1955ء میں جرمن فوج کو ملکی دفاع کے مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اپنے قیام کے تقریباً چالیس سال بعد جرمن فوجی پہلی مرتبہ کسی بین الاقوامی فوجی مشن میں شامل ہوئے تھے اور اب یہ معمول بن چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بائیس سال قبل ایک نئی ابتداء
دو اپریل 1993ء کو جرمن حکومت نے سابق یوگوسلاویہ میں شروع کیے جانے والے نیٹو مشن میں جرمن فوجیوں کو شامل کرنے کی اجازت دی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پہلی مرتبہ تھا کہ جرمن فوجی کسی بین الاقوامی فوجی مشن کا حصہ بنے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Stephanie Pilick
پارلیمان کی برتری
دو جولائی 1994ء کو جرمنی کی آئینی عدالت نے فیصلہ دیا کہ اقوام متحدہ اور نیٹو کے رکن ہونے کی وجہ سے جرمن فوجی ان نتظیموں کے عسکری مشننز میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ اس سلسلے میں پارلیمان کو برتری حاصل ہے اور جنگی کارروائیوں میں شامل ہونے کی اجازت ہر مرتبہ پارلیمان سے لینا لازمی ہے۔
تصویر: Getty Images
کوسوو کی جنگ
1999ء میں نیٹو کے پرچم تلے جرمن فوج نے کوسوو میں پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر کسی غیر ملکی عسکری کارروائی میں حصہ لیا تھا۔ یہ مشن شہری حقوق کے حوالے سے متنازعہ تھا کیونکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے اس کی باقاعدہ اجازت نہیں دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمنی میں شدید احتجاج
کوسوو میں جرمن فوجی اہلکاروں کی کارروائیوں پر ملکی سطح پر شدید احتجاج کیا گیا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ برلن حکومت نے اپنی افواج کو ملک سے باہر جنگی کارروائیوں میں حصہ لینے کی باقاعدہ اجازت دی تھی۔ اس کے بعد سیاسی سطح پر حالات شدید کشیدہ ہو گئے اور خاص طور پر ماحول دوست گرین پارٹی پر دباؤ بڑھ گیا۔ 1999ء میں پارٹی کے خصوصی اجلاس کے موقع پر گرین پارٹی کے وزیر خارجہ یوشکا فشر پر رنگ بھی پھینکا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دہشت گردی کے خلاف جنگ
گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد برلن حکومت نے بھی انسداد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ آپریشن ’’ اینڈورنگ فریڈم ‘‘ کے تحت جرمن دستے افغان جنگ میں شریک ہوئے۔ ساتھ ہی قرن افریقہ کے پانیوں میں بھی جرمن جنگی بحری جہاز تعینات کیے گئے۔
تصویر: AP
چانسلر شرؤڈر پر دباؤ
انسداد دہشت گردی کی جنگ میں شمولیت کے فیصلے پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی کے مابین شدید بحث ہوئی۔ اس وقت یہ دونوں جماعتیں ہی جرمنی پر حکومت کر رہی تھیں۔ اس موقع پر سوشل ڈیموکریٹ چانسلر گیرہارڈ شرؤڈر نے امریکا کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس مشن میں جرمن افواج کی شمولیت کو پارلیمان میں اعتماد کے ووٹ سے مشروط کر دیا۔ اور وہ اس میں معمولی سے اکثریت سے کامیاب بھی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
افغانستان میں تیرہ برس
2002ء سے جرمن افواج افغانستان میں موجود ہیں۔ تیرہ سالہ اس مشن کے دوران جرمنی کے 54 فوجی ہلاک ہوئے۔ 31 دسمبر 2014ء کو آئی سیف کا جنگی مشن اختتام پذیر ہو گیا اور اس کے بعد اب صرف ساڑھے آٹھ سو جرمن فوجی مقامی دستوں کو تربیت مہیا کرنے کے لیے افغانستان میں موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
قندوز حملہ
چار ستمبر 2009ء میں ان دو آئل ٹینکرز کو نشانہ بنایا گیا، جنہیں طالبان نے اغوا کیا تھا۔ اس کارروائی میں بچوں سمیت سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں تقریباً تمام ہی عام شہری تھے۔ ان ٹینکرز پر حملے کے احکامات ایک جرمن فوجی افسر کرنل گیئورگ کلائن نے دیے تھے۔ یہ جرمن فوج کے کسی بھی حملے میں ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔
تصویر: AP
ترکی میں میزائل شکن نظام
دسمبر 2012ء سے جرمن پیٹریاٹ ( میزائل شکن نظام) جنوب مشرقی ترکی میں نصب ہے۔ شام کی جانب سے کسی ممکنہ میزائل حملے کو ناکام بنانے کے لیے نیٹو کے ایماء پر یہ نظام وہاں نصب کیا گیا۔ اس سلسلے میں 256 جرمن فوجی وہاں تعینات ہیں اور اس مشن کی مدت جنوری 2016ء میں ختم ہو جائے گی
تصویر: picture-alliance/dpa
قزاقوں کے خلاف
امدادی اشیاء سے لدے اور دیگر تجارتی بحری جہازوں کو قزاقوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قرن افریقہ اور خلیج عدن میں یورپی یونین کا اٹلانٹا نامی ایک آپریشن جاری ہے۔ دسمبر2008ء میں شروع کیے جانے والے اس آپریشن میں 318 جرمن فوجی شامل ہیں۔
تصویر: Bundeswehr/FK Wolff
بحیرہ روم میں گشت
بحیرہ روم کے ذریعے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کو ڈوبنے سے بچانے کی کوششوں میں بھی جرمن فوجی پیش پیش ہیں۔ اس سلسلے میں 320 جرمن فوجی ضروری اشیاء سے لدے جہازوں اور تیز رفتار کشتیوں کے ساتھ بحیرہ روم میں اپریل 2015ء سے موجود ہیں۔ مستقبل میں اس آپریشن میں توسیع بھی کی جائے گی۔
تصویر: Bundeswehr/PAO Mittelmeer/dpa
مرنے والوں کی یاد میں
جرمن فوج کی اس ساٹھ سالہ تاریخ میں کل 106 فوجی بین الاقوامی مشنز کے دوران اپنی جان کی قربانی دے چُکے کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں برلن میں ہلاک ہونے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے قائم کی جانے والی یادگار کا افتتاح کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
12 تصاویر1 | 12
جنرل ایبرہارڈ سورن نے کہا کہ اگر ماسکو کی طرف سے یوکرائن کے جزیرہ نما کریمیا کے زبردستی روس کے ریاستی علاقے میں شامل کیے جانے کو دیکھا جائے، اس کے علاوہ یوکرائن کا جنگی تنازعہ اور وہاں علیحدگی پسندی کی مسلح تحریک، برطانیہ میں ایک سابق روسی ڈبل ایجنٹ سیرگئی اسکرپل کو زہر دیا جانا اور روس کا امریکا کے ساتھ جوہری میزائلوں سے متعلق دوطرفہ معاہدے آئی این ایف کو معطل کر دینا، یہ سب ایسی مثالیں ہیں، جو ثابت کر دیتی ہیں کہ روس ’یورپ میں امن کے لیے ایک بڑا خطرہ‘ ہے۔
جنرل سورن نے ’جرنلسٹ نیٹ ورک جرمنی‘ نامی میڈیا گروپ کو بتایا، ’’اگر ان تمام حقائق کر یکجا کر کے دیکھا جائے، تو ان کی اپنی ہی ایک مخصوص معنویت ہے۔‘‘ فیڈرل جرمن آرمی کے سربراہ نے مزید کہا، ’’جہاں تک روسی امریکی آئی این ایف معاہدے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ماسکو اور واشنگٹن کے مابین تخفیف اسلحہ کے بارے میں نئے مذاکرات کی ضرورت ہے۔‘‘
ایبرہارڈ سورن کے الفاظ میں، ’’اگر آئی این ایف معاہدہ سرے سے ہی ناپید ہو جاتا ہے، تو میرے رائے میں یہ بات باعث تشویش ہو گی کہ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے متعلق مستقبل کی صورت حال کیسی ہو گی؟ تب ایک نیا بین الاقوامی مانیٹرنگ نظام بھی ناگزیر ہو جائے گا۔‘‘
انسپکٹر جنرل سورن کے مطابق ایسے کسی ممکنہ کنٹرول سسٹم کے لیے یہ بھی لازمی ہو گا کہ اس نئے نظام میں تمام بڑی طاقتوں کو شامل کیا جائے، یعنی روس، امریکا اور چین کو بھی۔‘‘ جنرل سورن نے کہا کہ خطرناک ہتھیاروں کی دوڑ کے تدارک کے لیے ایک ایسا نیا بین الاقوامی نظام جرمنی سمیت پورے یورپ کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہو گا۔
م م / ع ت / ڈی پی اے
وفاقی جرمن فوج، زلفوں کی لمبائی کا جھگڑا عدالت میں
وفاقی جرمن فوج کا ایک اہلکار شانوں تک لمبے بال رکھنا چاہتا ہے۔ عدالت نے فوجی کی اپیل مسترد کر دی ہے لیکن ساتھ ہی وفاقی جرمن فوج کو زلفوں سے متعلق قوانین میں تبدیلی لانے کا حکم بھی دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Brandt
فوجی لیکن گوتھ کلچر کا حصہ
مدعی گوتھ کلچر کو پسند کرتا ہے۔ وہ فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ تصویر میں نظر آنے والے اس شخص کی طرح گوتھ اسٹائل کا دلدادہ ہے۔ نجی زندگی کے دوران تو لمبے بال مسئلہ نہیں ہیں لیکن دوران ڈیوٹی فوجی ضوابط کے تحت لمبے بال رکھنے کی ممانعت ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Prosch
سخت رویہ، نازک جلد
جرمن فوج کے قوانین کے مطابق سروس کے دوران ایک فوجی کے بال اس طرح ہونے چاہئیں کہ سیدھا کھڑا ہونے کی صورت میں بال نہ تو یونیفارم اور نہ ہی شرٹ کے کالر کو چھوئیں۔ یہ قانون صرف مرد فوجیوں کے لیے ہے۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
خواتین کی چُٹیا
بنیادی تربیت سے پہلے مردوں کے برعکس خواتین فوجیوں کے بال نہیں کاٹے جاتے۔ اگر خواتین کے بال کندھوں سے بھی طویل ہیں تو انہیں چٹیا بنانی ہوتی ہے۔ عدالت کے مطابق یہ مردوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Reinhardt
خواتین فوجیوں کی تلاش
عدالت نے وزارت دفاع کے موقف کی تائید کی ہے۔ وزارت دفاع کے مطابق خواتین لمبے بالوں کو حساس نسائیت کی وجہ سے پسند کرتی ہیں۔ جرمن فوج کو خواتین کے لیے پرکشش بنانے کی وجہ سے یہ اجازت دی گئی ہے۔
تصویر: Bundeswehr / Jonas Weber
لمبی داڑھی اور لمبی زلفوں کی اجازت؟
وفاقی انتظامی عدالت نے فوجی اہلکار کی اپیل تو مسترد کر دی ہے لیکن ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا ہے کہ فوج اپنے ملازمین کی نجی زندگی میں بہت زیادہ دخل اندازی کر رہی ہے، لہذا اسے اپنے قوانین میں تبدیلی لانا ہو گی۔ ہو سکتا ہے جلد ہی جرمن فوجیوں کو لمبے بال اور لمبی داڑھی رکھنے کی اجازت مل جائے۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
لڑائی سے پہلے بال تراشیں
تقریبا پچاس برس قبل وفاقی جرمن فوج کے اہلکاروں کو گردن کے پیچھے فیشن ایبل بال رکھنے کی اجازت تھی۔ سن 1971 میں ماتھے پر بھی لمبے بال رکھے جا سکتے تھے لیکن اس کے ایک برس بعد ہی یہ اجازت ختم کر دی گئی تھی۔
تصویر: Bundeswehr/Krämer
بیوروکریسی کے پھندے میں
ستر کی دہائی کے آغاز میں جرمن فوجیوں کو لمبے بال رکھنے کی اجازت تھی اور اسی وجہ سے بیرون ملک جرمن فوج کو ’جرمن ہیئر فورس‘ کہا جانے لگا تھا۔ لمبے بالوں کی وجہ سے جو صحیح طریقے سے ڈیوٹی سرانجام نہیں دے پاتا تھا، اسے بالوں کو قابو میں رکھنے والی ایک ٹوپی دی جاتی تھی۔ وفاقی جرمن فوج نے سات لاکھ چالیس ہزار جالی والی ٹوپیاں منگوائی تھیں۔
تصویر: Bundeswehr/Krämer
اپنے وطن کے لیے
اس فوجی کو خصوصی اجازت فراہم کی گئی تھی۔ سارجنٹ ہنس پیٹر کی یہ تصویر سن 2005 میں لی گئی تھی۔ جرمن فوج کا یہ اہلکار کلاسیک مونچھوں کے مقابلے میں پہلی پوزیشن بھی جیت چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Weihs
چہرہ چھپائیے
جب خود کو دشمن کی نگاہوں سے چھپانے کی بات کی جائے تو پھر سب کچھ جائز ہے۔ یہ دونوں فوجی نشانچی ہیں اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالے ہوئے ہیں۔