روس یوکرائن میں داخل ہوسکتا ہے، جو بائیڈن
20 جنوری 2022امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز پیش گوئی کی کہ ان کے خیال میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن یوکرائن کے خلاف ''پیشقدمی کریں گے۔'' تاہم شاید وہ ایک بڑے پیمانے کی جنگ بھی نہیں چاہتے ہیں۔
ایک نیوز کانفرنس کے دوران جب ان سے روسی حملے کے خطرے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، ''میرا اندازہ ہے کہ وہ آگے بڑھیں گے، انہیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے۔'' تاہم انہوں نے متنبہ کیا کہ روسی رہنما کو مغرب کو ''آزمائش'' میں ڈالنے کے لیے ''سنگین اور بڑی قیمت'' بھی ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت یوکرائن کی سرحدوں کے آس پاس تقریباً ایک لاکھ روسی فوجی تعینات ہیں۔ تاہم ماسکو یوکرائن پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی سے انکار کرتا ہے، البتہ اس کی فوج اس کے لیے تیار کھڑی ہے۔
بائیڈن نے کیا کہا؟
صدر جو بائیڈن نے کہا کہ اگر پوٹن نے اپنی فوجیں سرحد کے اس پار بھیجیں تو امریکی ڈالر میں اس کی مالیاتی منتقلی کو محدود کرنے سمیت روس پر سخت معاشی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک اس بات پر پوری طرح سے متفق نہیں ہیں کہ اگر کم پیمانے کی خلاف ورزی ہوئی تو اصل میں رد عمل کیا ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا، ''اگر یہ چھوٹے پیمانے کی در اندازی ہے تو ایک الگ بات ہے، اس پر ہم میں اختلافات ہو سکتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ لیکن اگر وہ حقیقت میں وہی کرتے ہیں جو وہ سرحد پر جمع افواج کے ساتھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور اگر انہوں نے یوکرائن پر مزید حملے کیے، تو یہ روس کے لیے تباہی کا باعث ہو گا۔''
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے پھر ہر چیز تبدیل ہو جائے گی، ''تاہم یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کرتے کیا ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم نیٹو میں بھی سب کو ایک ہی صفحے پر رکھیں۔ میں اسی کام میں بہت زیادہ وقت صرف کر رہا ہوں، اور اس میں کچھ اختلافات بھی ہیں،''
وائٹ ہاؤس کی وضاحت
امریکی صدر جو بائیڈن نے جب پریس کانفرنس کے دوران ممکنہ روسی حملے کی تصدیق کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ شاید روس بڑے پیمانے کی جنگ نہیں چاہتا تو اس پر کچھ نامہ نگاروں نے مسٹر بائیڈن سے سوال کیا کہ کیا ان کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ امریکا یوکرائن میں ایک مختصر سی مداخلت کی اجازت دے دیگا۔
یوکرائن میں بھی رہنما ان کے اس بیان پر تذبذب میں مبتلا ہو گئے جس کے بعد وائٹ ہاؤس نے ایک وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے اس معاملے میں امریکی موقف کو واضح کیا ہے۔
بدھ کی دیر رات کو وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی اپنے وضاحتی بیان میں کہا، ''اگر کوئی بھی روسی فوجی دستہ یوکرائن کی سرحد کے اس پار داخل ہوتا ہے، تو یہ ایک نئی جارحیت ہو گی، اور اس کا ہمارے اتحادیوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے تیز، شدید اور متحدہ جواب دیا جائے گا۔''
بلنکن کا دورہ یوکرائن
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بدھ کے روز کیف کے دورے پر تھے جہاں انہوں نے یوکرائن کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ روس، نہایت ہی مختصر نوٹس پر یوکرائن پر حملہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے تاہم کہا کہ ایسی صورت میں روس کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
یاد رہے کہ روس اور یوکرائن کے درمیان سن 2014 سے ہی کرائیمیا کے حوالے سے تنازعہ جاری ہے، جس پر روس نے قبضہ کر لیا تھا۔ مشرقی یوکرائن میں بھی علیحدگی پسندوں کے گروپ پہلے سے ہی ملک کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔
روس نے مغربی حکومتوں سے کئی مطالبات کیے ہیں، جن میں یہ اہم مطالبہ بھی شامل ہے کہ یوکرائن کبھی بھی نیٹو میں شامل نہیں ہونا چاہیے اور مغربی دفاعی اتحاد کی فوجی سرگرمیاں پولینڈ سمیت رکن ممالک تک ہی محدود رہنی چاہیں۔
گزشتہ ہفتے اسی اہم معاملے پر مغربی ممالک اور روس کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے تھے تاہم کسی پیش رفت تک نہیں پہنچا جا سکا۔ ماسکو کے کچھ مطالبا ت کو مغرب نے یکسر مسترد کر دیا۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)