1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس نے یوکرینی مزاحمت کے بعد عسکری اہداف کم کر دیے

26 مارچ 2022

یوکرین کی جانب سے شدید مزاحمت کے باعث روس نے اپنے عسکری اہداف میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب یوکرینی صدر زیلنسکی نے ایک مرتبہ پھر جنگ کے خاتمے کے لیے روس سے امن مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔

BdTD - Ukraine Mariupol
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS

گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے واقعات کا خلاصہ:

  • روس نے یوکرین میں اپنے عسکری عزائم میں کمی کا عندیہ دیا ہے
  • صدر زیلنسکی نے روس سے امن مذاکرات کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا ہے
  • جرمنی نے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کی رفتار کا دفاع کیا ہے
  • صدر جو بائیڈن نے 'آزاد دنیا‘ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پوٹن کے خلاف کھڑے ہوں

صدر پوٹن یوکرین جنگ محدود کرنے پر مجبور؟

روس کا کہنا ہے کہ یوکرین پر اس کا حملہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ بظاہر روسی افواج نے اپنی توجہ یوکرینی دارالحکومت کییف پر قبضے کی بجائے ڈونباس کے علاقوں پر مرکوز کر لی ہے۔

برطانیہ کی انٹیلیجینس رپورٹوں کے مطابق بھی روسی افواجکو کییف کے مشرق میں 35 کلومیٹر پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ حالیہ دنوں کے دوران یوکرینی فوج اور عوام کے ہاتھوں روسی افواج کو مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اس پس منظر میں روس کا اپنے عسکری اہداف میں تبدیلی کا پیغام ناکامیوں کو مثبت رخ دینے کی کوشش دکھائی دے رہا ہے۔

جمعے کے روز  روسی فوج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف جنرل سرگئی روڈسکوئی نے کہا کہ ماسکو نے 'خصوصی عسکری مشن‘ کے پہلے مرحلے کے تمام 'مرکزی اہداف‘ حاصل کر لیے ہیں۔

یوکرین پر روس حملے کو ایک ماہ گزر گیا

01:55

This browser does not support the video element.

جنرل روڈسکوئی کے مطابق روس نے 'یوکرینی افواج کی جنگ کرنے کی صلاحیتیں انتہائی محدود‘ کر دی ہیں اور اب روسی افواج اپنے 'اصل ہدف، ڈونباس خطے کی آزادی‘ پر توجہ مرکوز کر سکتی ہیں۔

یوکرینی صدر زیلنسکی کا رد عمل

یوکرینی صدر زیلنسکی نے بظاہر جنرل روڈسکوئی کے اسی بیان کا جواب دیتے ہوئے روس سے ایک مرتبہ پھر امن مذاکرات کے ذریعے جنگ ختم کرنے کا اپنا مطالبہ دہرایا ہے۔

تاہم اس کے ساتھ صدر زیلنسکی کا یہ بھی کہنا تھا کہ یوکرین امن کی خاطر اپنی سرزمین کا کوئی بھی حصہ چھوڑنے پر رضا مند نہیں ہو گا۔

جمعے اور ہفتے کی شب عوام کے نام جاری کیے گئے ویڈیو پیغام میں صدر زیلنسکی نے کہا، ''یوکرین کی سرزمین کی سلامتی کی ضمانت دی جانا چاہیے۔ شرائط منصفانہ ہونا چاہییں، بصورت دیگر یوکرینی عوام انہیں قبول نہیں کریں گے۔‘‘

’آزاد دنیا‘ پوٹن کے خلاف کھڑی ہو، بائیڈن کی اپیل

دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن یوکرین کے پڑوسی ملک پولینڈ میں موجود ہیں۔ آج ہفتے کی شام وہ ممکنہ طور پر دارالحکومت وارسا میں پولینڈ کے عوام سے خطاب کریں گے۔

اس حوالے سے وائٹ ہاؤس نے بتایا، ''صدر بائیڈن یوکرین کے عوام کی حمایت، روس کو وحشیانہ جنگ کے لیے جواب دہ ٹھہرانے، اور جمہوری اصولوں پر مبنی مستقبل کا دفاع کرنے کے لیے آزاد دنیا کی مشترکہ کوششوں پر اظہار خیال کریں گے۔‘‘

آج شام پولش عوام سے خطاب سے قبل صدر بائیڈن پولینڈ کے صدر آندرے ڈوڈا اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔ علاوہ ازیں وہ وارسا کے نیشنل اسٹیڈیم بھی جائیں گے جہاں یوکرینی پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کی جا رہی ہے۔

قریب ایک ماہ قبل یوکرین پر روسی حملے کے آغاز سے لے کر اب تک پولینڈ میں قریب 22 لاکھ یوکرینی مہاجرین داخل ہو چکے ہیں۔

یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کا عمل سست نہیں ہے، جرمنی

جرمن وزیر دفاع کرسٹین لامبریشٹ نے ایسے الزامات کی تردید کی ہے کہ ان کی وزارت یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کے وعدوں پر عمل کرنے میں سستی دکھا رہی ہے۔

مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''کسی چیز کی فراہمی سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ کتنا عملی ہے۔ لیکن میں ایک بات کی یقین دہانی کرا سکتی ہوں، اگر ہم خاموش ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کچھ نہیں کیا جا رہا، بلکہ بات اس کے برعکس ہے۔‘‘

جنگ کے آغاز سے اب تک 136 بچے مارے گئے، یوکرین

یوکرین کے دفتر استغاثہ نے کہا ہے کہ قریب ایک ماہ قبل یوکرین پر روسی حملہ شروع ہونے سے اس وقت تک 136 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔

یوکرینی حکام نے یہ پیغام ٹیلی گرام اور فیس بک پر جاری کیا ہے۔

اینونیمس ہیکر گروپ کا روس کے خلاف اعلان جنگ

04:51

This browser does not support the video element.

یوکرین کے مطابق 64 بچے دارالحکومت کییف کے علاقے میں مارے گئے جب کہ مشرقی علاقے ڈونباس میں بھی 50 بچوں کی ہلاکت ہوئی۔

دفتر استغاثہ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اب تک 200 سے زائد یوکرینی بچے جنگ میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ یوکرینی حکام کے دعووں کی آزاد ذرائع نے ابھی تک تصدیق نہیں کی ہے۔

ش ح/ع آ (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں