1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیوکرین

روس یوکرین میں فوجی شکست کی طرف بڑھتا ہوا، جرمن نائب چانسلر

29 دسمبر 2022

جرمن وزیر اقتصادیات روبرٹ ہابیک کے مطابق روس کی یوکرین میں فوجی مداخلت کے بعد سے جاری جنگ میں ماسکو وہاں اپنی عسکری شکست کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ ہابیک کے بقول روسی شکست کا باعث کییف کے لیے بھرپور مغربی حمایت بنے گی۔

A view of the ruins of a destroyed school in Kramatorsk, as Russia stepped up its ''military operation'' in Ukraine
یوکرینی علاقے کراماٹورسک میں روسی فضائی حملے میں ایک اسکول کی تباہی کے بعد وہاں سے اٹھنے والا دھواںتصویر: Alex Chan Tsz Yuk/Sopa/Zuma/picture alliance

جرمنی کی مخلوط وفاقی حکومت میں نائب چانسلر کے عہدے پر فائز اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اقتصادیات نے کہا کہ یوکرین میں روس کی مداخلت کا انجام ماسکو کی فوجی شکست ہی ہو گا۔ ہابیک نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ سال 2022ء اس طرح ختم ہو گا۔‘‘

یوکرین کے لیے مغربی ہتھیار

روبرٹ ہابیک کے الفاظ میں، ''روسی صدر پوٹن میدان جنگ میں یہ لڑائی اس لیے ہارتے جا رہے ہیں کہ یوکرین کو نہ صرف یورپی یونین، مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور امریکہ کی طرف سے ہتھیار مہیا کیے جا رہے ہیں بلکہ یوکرین انہیں استعمال کرتے ہوئے بڑی مہارت اور اسٹریٹیجک دانش مندی کے ساتھ ساتھ ہوشیاری اور ہمت کا مظاہرہ بھی کر رہا ہے۔‘‘

'ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں'، روسی صدر ولادیمیر پوٹن

گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے یہ جرمن سیاست دان یوکرین میں روسی فوجی مداخلت سے پہلے بھی کییف کے لیے جرمن ہتھیاروں کی فراہمی کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''میں اس بات کے حق میں ہوں کہ جرمنی اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر کییف کی اس طرح مدد کرتا رہے کہ یوکرین یہ جنگ جیت جائے۔‘‘

عشروں پرانے جرمن حکومتی موقف میں تبدیلی

اس سال فروری کے اواخر میں یوکرین میں روسی فوجی مداخلت کے صدر پوٹن کے فیصلے کے بعد سے جو جنگ اب تک جاری ہے، اس کے ابتدائی مہینوں میں جرمنی کی طرف سے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کے سلسلے میں کافی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا گیا تھا اور اس وجہ سے برلن حکومت پر کافی تنقید بھی کی گئی تھی۔

یوکرین میں امریکی پیٹریاٹ میزائل نظام تباہ کر دیں گے، روس

اس تنقید اور روسی یوکرینی جنگ کی خراب ہوتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر برلن میں چانسلر اولاف شولس کی حکومت نے کسی بھی مسلح تنازعے میں عدم مداخلت سے متعلق اس جرمن حکومتی موقف میں تبدیلی کا تاریخی فیصلہ کیا تھا، جس سے کئی عشروں میں کبھی کوئی انحراف نہیں کیا گیا تھا۔

روس چاہتا ہے کہ یوکرین جنگ جلد ختم ہو، ولادیمیر پوٹن

کییف کو جرمن ہتھیاروں کی فراہمی

یہ اسی نئی حکومتی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ جرمنی نے جنگی خطوں کو اپنی طرف سے ہتھیاروں کی ترسیل پر عائد پابندی ختم کر دی اور تب سے اب تک برلن حکومت یوکرین کو 2.24 بلین یورو مالیت کے اسلحہ جات کی فراہمی کی منظوری دے چکی ہے۔

یوکرین'ڈٹ کر کھڑا' ہے اور'کبھی ہتھیار نہیں ڈالے گا'، زیلنسکی

یوکرین کے لیے ان جرمن ہتھیاروں میں طیارہ شکن ٹینکوں اور بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے لانچروں سے لے کر آئی آر آئی ایس ٹی نامی فضائی دفاعی نظاموں تک کئی طرح کا جنگی ساز و سامان شامل ہے۔

روبرٹ ہابیک نے ڈی پی اے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ روسی یوکرینی جنگ میں برلن کا بالواسطہ کردار محض اس کا انفرادی یا یکطرفہ فیصلہ نہیں تھا۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ جرمنی اور اس کے مغربی اتحادی ممالک یوکرین کا آئندہ بھی 'نئے سسٹم اور مزید امداد‘ بھیجتے رہیں گے۔

م م / ع ت (ڈی پی اے)

یوکرین کا جرمنی سے مزید اسلحے کا مطالبہ

02:11

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں