روس یوکرین میں ہارا تو ایٹمی جنگ شروع ہو سکتی ہے، میدویدیف
19 جنوری 2023
سابق روسی صدر اور موجودہ صدر ولادیمیر پوٹن کے قریبی اتحادی دمیتری میدویدیف نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ممکنہ ایٹمی جنگ کی دھمکی دے دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین میں روس کی شکست جوہری ہتھیاروں سے جنگ کی وجہ بن سکتی ہے۔
اشتہار
یوکرین میں روسی فوجی مداخلت کے ساتھ گزشتہ برس فروری کے اواخر میں شروع ہونے والے جنگ تقریباﹰ گیارہ ماہ سے جاری ہے اور اس میں اب تک دونوں جنگی فریقوں کا بے تحاشا جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے۔
مغربی دنیا اس جنگ کی وجہ سے نہ صرف روس پر بہت سی پابندیاں لگا چکی ہے بلکہ روسی فوج کے خلاف یوکرین کی کھل کر عسکری مدد بھی کر رہی ہے۔ اس کے برعکس روس کا اندازہ تھا کہ وہ یوکرین کے خلاف اپنی جنگی مہم بہت جلد جیت لے گا تاہم ایسا نہ ہوا اور ماسکو کو اس جنگ میں ابھی تک بڑے جانی اور مالی نقصانات کا سامنا ہے۔ روس آج بھی یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ اس کے لیے یہ جنگ جیتنا بہت مشکل ہو گا۔
’ایٹمی طاقتیں جنگیں نہیں ہارتیں‘
روسی یوکرینی جنگ کے پس منظر میں ماضی میں روسی صدر کے فرائض انجام دینے والے اور موجودہ صدر پوٹن کے بہت قریبی اتحادی دمیتری میدویدیف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر اپنے ایک بیان میں آج جمعرات انیس جنوری کے روز لکھا، ’’ایک ایٹمی طاقت کی ایک روایتی جنگ میں شکست جوہری ہتھیاروں سے جنگ شروع ہو جانے کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔‘‘
سن 2008ء سے لے کر 2012ء تک صدر کے عہدے پر فائز رہنے والے دمیتری میدویدیف موجودہ صدر پوٹن کی قیادت میں قائم روس کی بہت طاقت ور سکیورٹی کونسل کے نائب سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے ٹیلیگرام پر اپنی پوسٹ میں لکھا، ''ایٹمی طاقتیں آج تک کے ایسے بڑے تنازعات میں کبھی ناکام نہیں رہیں جو ان کے مستقبل کا تعین کر سکتے ہوں۔‘‘
نیٹو کو واضح تنبیہ
دمیتری میدویدیف نے اپنا یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا ہے جب کل جمعہ بیس جنوری کے روز جرمنی میں رامشٹائن کے فضائی اڈے پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ممالک کے وزرائے دفاع کا ایک اہم اجلاس ہو رہا ہے۔
اس اجلاس میں شریک وزراء یوکرین میں روس کو فوجی شکست دینے کے لیے کییف حکومت کی مدد اور اس جنگ سے متعلق مغربی دنیا کی اب تک کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کریں گے۔
اس تناظر میں دمیتری میدویدیف نے اپنے بیان میں لکھا کہ نیٹو کی رکن ریاستوں اور دیگر ممالک کے وزرائے دفاع کو اس بارے میں بھی غور کرنا چاہیے کہ ان کی حکمت عملی اپنے اندر کس کس طرح کے خطرات لیے ہوئے ہے۔
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
12 تصاویر1 | 12
دنیا کی دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتیں
روس اور امریکہ دنیا کی دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتیں ہیں۔ یہ دونوں ملک دنیا کے 90 فیصد کے قریب جوہری ہتھیاروں کے مالک ہیں۔ آئینی طور پر روس کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے کسی بھی ممکنہ استعمال کا حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار صدر پوٹن کے پاس ہے۔
جہاں تک روس اور نیٹو کی عسکری طاقت کے موازنے کا تعلق ہے تو روایتی جنگی طاقت اور عسکری ساز و سامان کے شعبے میں نیٹو کو روس پر برتری حاصل ہے۔ لیکن اگر جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے دیکھا جائے تو یورپ میں، جہاں یوکرین کی جنگ جاری ہے، روس کو نیٹو پر برتری حاصل ہے۔
اشتہار
یوکرینی جنگ سے متعلق پوٹن کا موقف
چوبیس فروری 2022ء کے روز ماسکو کے فوجی دستوں کو یوکرین میں مسلح مداخلت کا حکم دینے والے صدر پوٹن اس جنگی تنازعے کو اپنی طرف سے باقاعدہ جنگ کا نام دینے سے عسکری اور سیاسی سطح پر احتراز کرتے ہیں۔
ولادیمیر پوٹن کے بقول یوکرین کے خلاف روسی فوجی مہم ماسکو کا ایک 'خصوصی فوجی آپریشن‘ ہے اور اس تنازعے میں روس مبینہ طور پر مغرور اور جارحیت پسند مغرب کے خلاف اپنی بقا کی جہدوجہد میں مصروف ہے۔
چیرنوبل کو تین دہائیوں قبل جوہری آفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس شہر کے تیس کلومیٹر کے اندر اب بھی انسانی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ اس کے باوجود کچھ لوگ واپس لوٹ آئے۔ یوکرائنی فوٹوگرافر علینا روڈیا نے ان لوگوں ملاقات کی۔
تصویر: DW/A. Rudya
بابا گانیا کی وبائی خوش امیدی
تصویر میں بائیں جانب چھیاسی سالہ بابا گانیا ہیں۔ ان کے شوہر کی موت قریب ایک دہائی پہلے ہو چکی ہے۔ وہ پچیس برسوں سے چیرنوبل کے قریبی گاؤں میں مقیم ہیں اور اپنی ذہنی طور پر معذور بہن سونیا (تصویر میں دائیں) کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ وہ فخر سے کہتی ہیں کہ انہیں تابکار مود سے خوف نہیں اور وہ مشروم کو اتنا ابالتی ہیں کہ اُن میں سے تابکاری اثر ختم ہو جاتا ہے۔ فوٹو گرفر علینا اُن سے کسی مرتبہ مل چکی ہیں۔
تصویر: DW/A. Rudya
جلدی میں گھربار چھوڑنے والے مقامی لوگ
چھیاسی برس کی گانیا اپنی بہن سونیا کے ساتھ چیرنوبل شہر سے انیس کلومیٹر کی دوری پر واقع گاؤں کُوپُوویٹ میں مقیم ہیں۔ یہ گاؤں چیرنوبل جوہری مرکز کے کھنڈرات کے قریب ہے۔ اپریل سن 1986 میں جوہری مرکز کی تباہی کے بعد کُوپُوویٹ گاؤں کے سینکڑوں لوگ گھربار چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ان ویران مکانات میں سے ایک گانیا کا اسٹور ہے۔ اسی میں اُس نے اپنے تابوت رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/A. Rudya
مرے ہوئے لوگ کہاں گئے
فوٹوگرافو علینا روڈیا کے مطابق چیرنوبل ٹریجڈی کے بعد کُوپُوویٹ گاؤں کا قبرستان بھی یوکرائن کے دوسرے قبرستانوں جیسا ہو کر رہ گیا تھا۔ کُوپُوویٹ کے گرنے والے مکانات سے لوگوں کو نکال لیا گیا تھا اور وہ تابکاری زون سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن اُن کی واپسی مرنے کے بعد ہو گی جب اُن کی تدفین گاؤں کے قبرستان میں کی جائے گی۔
تصویر: DW/A. Rudya
بابا مارُوسیا کی آخری خواہش
کُوپُوویٹ کے باسی اپنے مرے ہوئے اہل خانہ کی قبروں کی دیکھ بھال ضرور کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک بزرگ خاتون بابا مارؑوسیا ہے۔ وہ گاؤں اپنی والدہ کی قبر کو صاف کرنے آئی ہوئی تھیں کہ فوٹوگرافر علینا سے ملاقات ہوئی۔ مارُوسیا نے بتایا کہ اُس کی خواہش ہے کہ مرنے کے بعد اُسے شوہر کی قبر کے ساتھ نہیں بلکہ ماں کی قبر کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ اُن کی ایک بیٹی یوکرائنی دارالحکومت کییف میں رہتی ہے۔
تصویر: DW/A. Rudya
ساموسیلی: واپس لوٹنے والوں کا ایک اور گاؤں
گالینا ایک دوسرے گاؤں ساموسیلی کی باسی ہیں اور وہ واپس لوٹ کر اپنے گاؤں میں پھر سے آباد ہو چکی ہیں۔ اُن کی عمر بیاسی برس کی ہے۔ وہ اُن چند افراد میں سے ہے، جو اب واپس آ چکے ہیں۔ گالینا اپنی پرانی یادوں کے حوالے سے کہتی ہیں کہ جوانی میں وہ دنیا بھر کی سیر کرنے کی تمنا رکھتی تھیں لیکن وہ زندگی میں کییف سے آگے نہیں جا سکی ہیں۔
تصویر: DW/A. Rudya
اپنی دنیا میں زندگی گزارنے والے
ایوان ایوانووچ اور اُن کی بیوی ایسے چند سو لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے کُوپُوویٹ واپس آنے میں بہتری محسوس کی۔ وہ اسی کی دہائی میں تابکاری سے متاثرہ اس علاقے میں لوٹ آئے تھے۔ ایوان اس علاقے کا دورہ کرنے والوں کے لیے ایک اسٹار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اُن کی اہلیہ چند برس قبل رحلت پا گئی تھیں۔ علینا جب بھی ایوان سے ملتی ہے، تو وہ اسے کئی واقعات سناتا ہے، جو حقیقت اور تصورات کی دنیا سے جڑی ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/A. Rudya
ماضی کے گواہ
رواں برس چھبیس اپریل کو چیرنوبل حادثے کی بتسویں برسی منائی گئی۔ فوٹوگرافر علینا روڈیا کو ایک اور گاؤں اوپاچیچی جانے کا اتفاق ہوا۔ اس گاؤں میں اُس کی ملاقات ایک اور بڑھیا سے ہوئی۔ وہ اسی گاؤں میں برسوں سے مقیم ہے۔ اس گاؤں کے بیشتر لوگ اب مر چکے ہیں۔ کھلے خالی گھروں میں خطوط، تصاویر بکھری ہوئی ہیں۔ ان گھروں میں یوکرائنی کشیدہ کاری کے تولیے اور فرنیچر آنے والوں کو تکتے رہتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Rudya
چپکے چپکے خداحافظ کہنے والے لوگ
مارُوسیا مسلسل اپنے شوہر ایوان کو دیکھتی رہتی ہے، جو اب شدید علیل ہو چکا ہے۔ اُس پر فالج کا حملہ ہوا اور اب وہ ڈیمینشیا کا مریض بن چکا ہے۔ ماروسیا کے مطابق وہ اکثر راتوں میں اٹھ کر باہر نکل کر اپنے ٹریکٹر کو تلاش کرتا ہے۔ ایوان بیالیس برس تک کام کرتا رہا ہے۔ بوڑھی مارُوسیا بھی اب اپنی سست روی سے آنے والی موت کی منتظر ہے اور وہ کہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتی۔
تصویر: DW/A. Rudya
مرنے کے بعد کا انتظام
مارُوسیا کے شوہر ایوان نے بیمار ہونے سے پہلے اپنے اور بیوی کے لیے دو تابوت مکمل کر کے رکھ چھوڑے ہیں۔ یہ دونوں تابوت اُن کے مکان کے ساتھ والے مکان میں رکھے ہوئے ہیں۔ مارُوسیا کے مطابق نیچے والا تابوت اُس کا ہے اور اوپر والا تابوت اُس کے شوہر ایوان کا ہے۔
تصویر: DW/A. Rudya
ساموسیلی گاؤں کے آخری باسی
علینا کے مطابق ساموسیلی گاؤں میں اب بھی چند ایسے لوگ آباد ہیں، جنہوں نے اس مقام پر زندگی بسر کرنے کا خود فیصلہ کیا تھا۔ علینا روڈیا بھی چیرنوبل کے قریبی علاقے میں پیدا ہوئی تھی اور وہ ان دیہات میں کئی مرتبہ آ چکی ہے اور ہر مرتبہ اُس پر اداسی پہلے کے مقابلے میں زیادہ طاری ہو جاتی ہے۔ سبھی لوگوں کی عمریں ستر برس سے زائد ہیں علینا جب بھی یہاں آتی ہے تو کسی نہ کسی کی موت واقع ہو چکی ہوتی ہے۔
صدر پوٹن یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ روس جارحیت کرنے والے کسی بھی ملک کے خلاف اپنا اور روسی عوام کا تحفظ کرنے کے لیے ہر قسم کے دستیاب ذرائع استعمال کرے گا۔
مغربی دنیا کا موقف
روسی یوکرینی جنگ براعظم یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے کر آج تک کا سب سے ہلاکت خیز تنازعہ ثابت ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ یہی جنگ ماسکو اور مغربی دنیا کے مابین 1962ء میں کیوبا کی سرزمین پر میزائل نصب کرنے کے منصوبے کے باعث پیدا ہونے والے بحران کے بعد سے آج تک کی سب سے بڑی مخاصمت بھی بن چکی ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے یوکرین کی جنگ کے باعث روس کی یہ کہہ کر مذمت کی جاتی ہے کہ یوکرین میں فوجی مداخلت روس کی طرف سے یوکرینی علاقے پر سامراجی قبضے کے لیے شروع کی گئی۔
جہاں تک خود یوکرین کا تعلق ہے تو کییف حکومت کئی مرتبہ کہہ چکی ہے کہ یوکرین روس کے خلاف اس وقت تک لڑتا رہے گا، جب تک کہ آخری روسی فوجی کو بھی یوکرینی علاقے سے نکال نہیں دیا جاتا۔
م م / ر ب (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
یوکرین: تباہی اور شکستہ دلی کے مناظر
روسی فوج کی طرف سے یوکرین پر تقریباﹰ چار ہفتوں سے حملے جاری ہیں۔ جنگ کی صورتحال میں شہریوں کی پریشانیاں مزید بڑھتی جارہی ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت انسانی بحران کو جنم دے رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جتنی طویل جنگ اتنی ہی زیادہ مشکلات
ایک عمررسیدہ خاتون اپنے تباہ شدہ گھر میں: یوکرین کے شہری جنگ کے سنگین اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباﹰ اگر صورتحال اگلے بارہ ماہ تک ایسے جاری رہی تو نوے فیصد ملکی آبادی غربت کا شکار ہو جائے گی۔ جنگی حالات یوکرینی معیشت کو دو عشرے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
تصویر: Thomas Peter/REUTERS
بھوک کے ہاتھوں مجبور
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں بھوک سے مجبور عوام نے ایک سپرمارکیٹ لوٹ لی۔ خارکیف، چیرنیہیف، سومی، اور اوچترکا جیسے شمالی مشرقی اور مشرقی شہروں کی صورتحال بہت خراب ہے۔ مقامی رہائشیوں کو مسلسل داغے جانے والے روسی میزائلوں اور فضائی بمباری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: Andrea Carrubba/AA/picture alliance
تباہی میں مدد کی پیشکش
دارالحکومت کییف میں ایک فائر فائٹر روسی حملوں سے تباہ شدہ عمارت کی رہائشی کو تسلی دے رہی ہے۔ اس امدادی کارکن کو کئی یوکرینی شہریوں کے ایسے غم بانٹنے پڑتے ہیں۔ تاہم روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف مسلح افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ رہائشی مقامات کی تباہی سمیت روزانہ شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جنگ کی تاریکی میں جنم
یہ تصویر ایک ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کی ہے، جس کی پیدائش خارکیف میں واقع ایک عمارت کی بیسمینٹ میں بنائے گئے عارضی میٹرنٹی سنٹر میں ہوئی ہے۔ کئی ہسپتال روسی فوج کی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں، جس میں ماریوپول کا ایک میٹرنٹی ہسپتال بھی شامل ہے۔
تصویر: Vitaliy Gnidyi/REUTERS
مایوسی کے سائے
یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریوپول کے ہسپتال بھر چکے ہیں، ایسے میں گولہ باری سے زخمی ہونے والے افراد کا علاج ہسپتال کے آنگن میں ہی کیا جارہا ہے۔ کئی دنوں سے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں بحرانی صورتحال ہے۔ یوکرینی حکام محصور شدہ شہروں میں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Evgeniy Maloletka/AP/dpa/picture alliance
خوراک کی ضرورت
علیحدگی پسندوں کے زیرانتظام ڈونیسک خطے کے شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی یوکرین کے علاقے لوہانسک اور ڈونیسک میں شدید لڑائی جاری ہے۔ روسی وزارت دفاع اور علیحدگی پسندوں کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
خاموش ماتم
مغربی شہر لویو میں ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے جانے پر افسردہ ہیں۔ اسی طرح کئی شہری بھی موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق 24 فروری سے شروع ہونے والے روسی حملوں سے اب تک تقریباﹰ 724 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جس میں 42 بچے بھی شامل ہیں۔
کییف میں ایک دکان پر روسی گولہ باری کے بعد یہ ملازم ملبہ صاف کر رہا ہے۔ یہ اسٹور کب دوبارہ کھل سکے گا؟ معمول کی زندگی کی واپسی کب ہوگی؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔