بیٹل جوس اوراین کانسٹی لیشن کا چمک دار ترین ستارہ ہے، جو اپنی روشنی میں واضح تغیرات کے باعث ایک عرصے سے ماہرین فلکیات کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس روشن ترین ستارے کی روشنی اکثر مدہم کیوں ہو جاتی ہے؟
اشتہار
بیٹل جوس کو عموماﹰ بیٹل گُوز (Betelgeuse) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سرخ رنگ کا ایک عظیم الجثہ، انتہائی چمک دار اور متغیر ستارہ ہے، جو ہماری کائنات میں اوراین برج میں اوپر کی طرف دائیں جانب بہت نمایاں ہوتا ہے۔
یہ رات کے وقت زمین سے آسمان پر انسانی آنکھ سے باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر اسے دوربین سے دیکھا جائے، تو یہ کسی ایسے شکاری کی طرح دکھائی دیتا ہے، جس نے اپنے کندھے پر بندوق اٹھا رکھی ہو۔ فلکیاتی ماہرین اسے 'آرم پِٹ آف اے جائنٹ‘ (Armpit of a Giant) بھی کہتے ہیں۔
بیٹل جوس کو متغیر ستارہ کیوں کہا جاتا ہے؟
ڈاکٹر فضیل محمود خان نے جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ کی یونیورسٹی کے ماکس پلانک ریسرچ اسکول فار ایسٹرانامی اینڈ کاسمک فزکس سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور اس وقت وہ متحدہ عرب امارات کی ریاست ابوظہبی کی نیو یارک یونیورسٹی سے بحیثیت محقق وابستہ ہیں۔
ڈاکٹر فضیل محمود خان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بیٹل جوس کا تعلق متغیر ستاروں کے ایک پورے گروپ سے ہے اور ایسے ستاروں کی روشنی میں ان میں رونما ہونے والے داخلی طبعی عوامل کے باعث ایک خاص مدت کے بعد تبدیلی پیدا ہوتی رہتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بیٹل جوس نامی عظیم الجثہ ستارے کی روشنی میں ایک باقاعدہ چکر کی صورت میں تغیرات آتے ہیں۔ ایسے ایک عام طبعی چکر یا فزیکل سائیکل کا دورانیہ 2170 دن ہوتا ہے۔ اس دوران اس جائنٹ سٹار کی روشنی مدہم ہو کر دوبارہ از خود بحال ہو جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روشنی میں یہ تغیرات اس ستارے کی بیرونی تہوں میں ارتعاش کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر فضیل محمود کے بقول بیٹل جوس کی کمیت ہمارے نظام شمسی کے سورج سے بمشکل 15 گنا زیادہ ہے اور فلکیاتی اعتبار سے اس کی زندگی کا دورانیہ محض 10 ملین سال ہے، جو سورج کی زندگی یعنی دس بلین سال سے بہت ہی کم ہے۔ اسی لیے یہ ستارہ اب اپنے اختتام کے قریب ہے۔
ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ بیٹل جوس مقابلتاﹰ جلد ہی پھٹ کر سپر نووا بن جائے گا۔ کسی ستارے سے سپر نووا بننے کا عمل انتہائی طاقت ور ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کی رائے میں جب بیٹل جوس پھٹ کر سپر نووا بننے گا، تو یہ اتنا زیادہ روشن ہو گا کہ کئی بلین ستاروں سے بھری کسی کہکشاں کی روشنی کو بھی ماند کر دے گا۔
ڈاکٹر فضیل محمود خان کے الفاظ میں ماہرین فلکیات ابھی تک حتمی طور پر نہیں جانتے کہ بیٹل جوس کب پھٹ کر سپر نووا بنے گا، ''ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں یہ بہت انوکھا منظر دیکھ سکیں۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری آئندہ نسل بھی ایسا ہوتا نہ دیکھ سکے۔‘‘
بیٹل جوس ماہرین فلکیات کی توجہ کا مرکز کیوں؟
بیٹل جوس نامی ستارہ گزشتہ پانچ سال سے ماہرین فلکیات کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ 2019ء کے اواخر میں اس کی روشنی میں نمایاں کمی نوٹ کی گئی تھی جو جون 2020ء تک بحال بھی ہو گئی تھی۔ ابوظہبی کی نیو یارک یونیورسٹی کے ریسرچر فضیل محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 2019ء سے 2020ء تک بیٹل جوس کی روشنی مدہم ہونے سے متعلق کئی وضاحتیں پیش کی گئی تھیں۔
ان میں سے سب سے زیادہ قابل قبول وضاحت یہ ہے کہ بیٹل جوس کے قریب خلائی گرد کا ایک بادل یا ڈسٹ کلاؤڈ بن گیا تھا۔ ڈاکٹر خان کے بقول اس وضاحت کی تصدیق ہبل اور کئی دیگر دوربینوں سے حاصل شدہ ڈیٹا سے بھی ہو گئی۔ ان دوربینوں کے ذریعے بھی اس ستارے کی ''ڈِمنگ‘‘ یا اس کی روشنی مدہم ہو جانےکے عمل کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔
اگر چاند نہ رہا تو کیا ہم رہیں گے؟
03:51
اس نظریے کے مطابق تب بیٹل جوس نے اپنی بیرو نی تہوں سے بڑی مقدار میں مواد خارج کیا تھا۔ یہ مواد ٹھنڈا اور گاڑھا ہو کر ایک ڈسٹ کلاؤڈ کی شکل اختیار کر گیا تھا، جو اس ستارے کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے جزوی طور پر روک رہا تھا۔
فلکیاتی طبیعیات کے ماہرین کے مطابق بیٹل جوس ایک عظیم الجثہ سرخ ستارہ ہے، جو اپنے اندرونی درجہ حرارت، دباؤ اور زیادہ کمیت والی غیر مستحکم بیرونی تہوں کے باعث اکثر مرتعش رہتا ہے۔ یہ عمل اس ستارے کے پھیلنے اور سکڑنے کا باعث بنتا ہے اور اس وجہ سے بھی اس کی روشنی وقتاﹰ فوقتاﹰ مدہم یا تیز ہوتی رہتی ہے۔
اشتہار
کسی ستارے سے سپر نووا بننے کا عمل اہم کیوں؟
ڈاکٹر فضیل محمود خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بیٹل جوس جب پھٹ کر سپو نووا بنے گا، تو آسمان پر پورے چاند سے بھی زیادہ روشن دکھائی دے گا۔ ان کے بقول تب ''اسے شاید کئی ہفتوں یا مہنیوں تک دن کی روشنی میں بھی دیکھا جا سکے گا۔‘‘
گزشتہ تیس برسوں سے ہبل ٹیلی اسکوپ کے ذریعے خلا کے حیران کن مناظر اور تصاویر دیکھنے کو دستیاب ہوئی ہیں۔ کائنات کے دوردراز کے کونوں سے بھی امیجز حاصل ہوئے ہیں۔ چند بہترین تصویر دیکھتے ہیں:
تصویر: NASA/Newscom/picture alliance
کمپیوٹر کا مسئلہ حل ہو گیا
ناسا کو ہبل ٹیلی اسکوپ سے تیرہ جون سن 2021 سے پندرہ جولائی تک امیجز موصول ہونا بند ہو گئے تھے۔ اس کی وجہ ناسا میں نصب کمپیوٹر کی میموری کے سسٹم میں نقص کا پیدا ہونا بتایا گیا۔ جب یہ نقص دور نہ ہوا تو بعض ریٹائرڈ ماہرین کو طلب کیا گیا اور انہوں نے اس نقص کو دور کیا۔ امیجز پھر موصول ہونا شروع ہو گئے۔ تین دہائیوں سے ہبل دوربین نے خلا کے ستاروں اور کہکشاؤں کی حیران کن اور شاندار تصاویر فراہم کی ہیں۔
تصویر: ESA
ستارے جنم لے رہے ہیں
اس تصویر میں ہبل دوربین نےستاروں کی نرسری کو محفوظ بنایا ہے۔ سن 2014 میں انتہائی بڑے نیبولا اور اس کے قریب ایک اور ستارے کے درمیان وسیع ستاروں کا جھرمٹ بادل جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ ایک لاکھ تریسٹھ ہزار نوری سال کی دوری پر ہے۔ ایک نوری سال سے مراد ایک سال میں روشی اپنی رفتار سے جتنا سفر کرتی ہے۔ روشنی ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔
تصویر: NASA/ESA/TScI
اسٹار وارز سے بہتر
سن 2015 میں اسٹار وار فلم کا نیا حصہ ریلیز کیا گیا تھا۔ ہبل کی یہ تصویر بھی اسی سال کی ہے۔ اس میں بھی ستارے مدمقابل ہیں۔ اس تصویر میں ایک آسمانی اسٹرکچر تیرہ سو نوری سال کی مسافت پر دکھائی دے رہا ہے، جو ایک نئے اسٹار سسٹم کی افزائش سے نتھی کیا گیا ہے۔ یہ ایک ناقابل بیان تصویر قرار دی گئی تھی۔
تصویر: NASA/ESA/Hubble
خلا میں آنکھیں
سن 1990 میں ہبل ٹیلی اسکوپ کو زمین کے مدار میں چھوڑا گیا تھا۔ یہ تمام دوربینوں کی ملکہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ زمینی مدار میں ستائیس ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہی ہے۔ یہ زمین سے تین سو چالیس کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ ہبل کی لمبائی گیارہ میٹر اور وزن گیارہ ٹن ہے یعنی ایک اسکول بس جتنا وزن۔ اسے ’خلا میں آنکھ‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
تصویر: NASA/Getty Images
کائناتی بلبلے
ہبل نے انسانوں کو ستاروں کی پیدائش اور سیاروں کی معلومات اور سوجھ بُوجھ فراہم کی ہے۔ اس کے ذریعے کائنات کی عمر اور وہاں کے بلیک میٹرز کی آگہی بھی ملی۔ اس تصویر میں گیس کا ایک بڑا گولہ دیکھا جا سکتا ہے جو شاید دو ستاروں کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والے سپرنووا دھماکے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
تصویر: AP
عارضی تیرتے رنگ
خلا میں مختلف گیسیں مختلف رنگ چھوڑتی ہیں۔ سرخ رنگ کی گیس سلفر سے نکلتی ہے تو سبز رنگ کی گیس کا تعلق آکسیجن سے ہے۔ نیلے رنگ کی گیس بھی آکسیجن کی ہو سکتی ہے۔
سن 1993 میں امریکی خلائی شٹل اینڈیور ماہرین کو لے کر ہبل ٹیلی اسکوپ تک گئی تھی۔ ان ماہرین نے وہاں پہنچ کر دوربین کے شیشے کی مرمت کی اور اس دوران اس کے عدسوں پر ایک عینک بھی چڑھائی تا کہ اس کے دیکھنے کی صلاحیت مزید بہتر ہو سکے۔ اب تک اس دوربین کی پانچ مرتبہ مرمت کی جا چکی ہے۔ آخری مرتبہ مرمت سن 2009 میں کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Nasa
خلائی کنڈرگارٹن
دسمبر سن 2009 میں ہبل نے ایک حیران کن امیج روانہ کیا۔ اس تصویر میں نیلے نشانات چھوٹے چھوٹے ستارے ہیں، جو ابھی نوزائیدہ ہیں۔ ان میں سے بعض ستاروں کی عمر چند ملین سال ہے۔ ستاروں کا یہ بڑا جھرمٹ ایک قریبی کہکشاں میں واقع ہے اور ہماری کہکشاں ملکی وے کا ایک سیٹلائٹ بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Nasa
تتلی ہے یہ؟
یہ تصویر بھی خلا سے ہبل نے کھینچی ہے۔ کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ ہبل نے یہ کیسے بنائی ہے یا اس سے مراد کیا ہے لیکن یہ بھی ایک انتہائی شاندار تصویر ہے۔ ہبل دوربین اب تک ہزاروں تصویریں ارسال کر چکی ہے۔
تصویر: NASA/ESA/ Hubble Heritage Team
آفاقی سومبریرو
یہ تصویر کئی تصاویر کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ اس میں سومبریرو کہکشاں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ کہکشاں بل کھاتی ہوئی ہے۔ اس کہکشاں نے انسانی دماغ کو بگ بینگ کے تصور کو بھی سمجھنے میں مدد دی ہے۔
تصویر: NASA/ESA/ Hubble Heritage Team
ایڈون پاول ہبل
ایڈون پاول ہبل
دنیا کی سب سے بڑی دوربین امریکی فلکیاتی سائنسدان ایڈون پاول ہبل (1889-1953) کے نام سے معنون ہے۔ وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے اس کی تصدیق کی تھی کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور انہوں نے ہی کائنات کی تخلیق سے جڑے بگ بینگ کے نظریے کا فہم بھی دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تخلیق کے ستون
زمین سے سات ہزار نوری سال کی دوری پر یہ ستون حقیقت میں ایگل نیبولا ہے۔ ہبل کی اس تصویر کو ’کائنات کے ستون‘ کا نام دیا گیا تھا۔
تصویر: NASA, ESA/Hubble and the Hubble Heritage Team
ایک نیا دور
ہبل زوردار انداز میں کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کا امکان ہے کہ ہبل واپس زمین پر سن 2024 میں لائی جائے گی۔ اس کی جگہ لینے والی متبادل دوربین جیمز ویب تیار ہو چکی ہے۔ اس کی آزمائش جاری ہے۔ امکان ہے کہ جیمز ویب رواں برس کسی وقت خلا میں نصب کر دی جائے گی۔ اس کے کام کا مقام زمین سے ڈیڑھ ملین کلومیٹر دور ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Nasa/Chris Gunn
اسپیس اسمائلی
یہ تصویر بھی ہبل دوربین کی تخلیق ہے، ایک اسپیس اسمائلی۔ یہ روشنی کے ایک دھارے میں پیدا خم تھا، جس نے اسمائلی کا روپ دھارا اور ہبل ٹیلی اسکوپ نے محفوظ کر لیا۔
تصویر: PD/NASA/J. Schmidt
14 تصاویر1 | 14
کائنات میں ستاروں کے سپر نووا بننے کا عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کوئی ستارہ جب پھٹتا ہے، تو نیوکلیئر ری ایکشنز کی صورت میں بڑی مقدار میں ایسے اہم عناصر بناتا ہے، جو دھماکے کے ساتھ ہی ہر طرف بکھر جاتے ہیں۔ ان عناصر میں آئرن، آکسیجن، نکل، سیلیکون، سلفر، کاربن، نائٹروجن اور یورینیم وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
جرمنی سے فلکیاتی طبیعیات میں ڈاکٹریٹ کرنے والے اس پاکستانی سائنسدان کے بقول درحقیقت ہائیڈروجن اور ہیلیم کے علاوہ تمام عناصر اسی عمل سے وجود میں آئے۔ ''حتیٰ کہ زمین اور ہمارے جسم میں موجود تمام عناصر بھی ستاروں کے اندر ہی بنے تھے، جو بعد میں ان ستارون کے پھٹ کر سپر نووا بننے کے دوران ہر طرف بکھر گئے تھے۔‘‘
ان کے مطابق کائنات کی طبیعیاتی تاریخ میں بہت زیادہ پیچھے جا کر دیکھا جائے تو انسانی وجود کا ظہور بھی دراصل ''سٹار ڈسٹ‘‘ کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔
ڈاکٹر فضیل محمود خان نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنی بات اس وضاحت کے ساتھ ختم کی، ''جلد یا بدیر بیٹل جوس کی بیرونی تہہ پھٹ کر اسے ایک بلیک ہول میں تبدیل کر دے گی اور وہی اس عظیم الجثہ ستارے کی فلکیاتی زندگی کے دور کا آخری باب ہو گا۔‘‘
جیمز ویب دوربین، نگاہیں خیرہ کر دینے والی تصاویر
جیمز ویب دوربین نگاہیں خیرہ اور ذہن ششدر کر دینے والی تصاویر ارسال کر رہی ہے۔ آئیے چند نئی تصاویر پر نگاہ ڈالیں اور فطرت کی ہزاروں نوری سالوں کے فاصلے پر محیط کینوس پر پھیلی مصوری سے لطف اندوز ہوں۔
تصویر: NASA, ESA, CSA, K. Lawson (GSFC), J. Schlieder (GSFC), A. Pagan (STScI)
سرخ بونے ستارے کا گردآلود چھلا
زمین سے بتیس نوری سال کے فاصلے پر موجود سرخ بونے ستارے اے یو مِک بتیس کے گِرد دھول دیکھیے۔ جیمز ویب دوربین نے دو مختلف طول موج کا استعمال کر کے یہ دو تصویر لی ہیں۔ ان تصاویر میں ستاروی گرد ایک مسلسل تصادم کا منظر پیش کر رہی ہے۔
تصویر: NASA, ESA, CSA, K. Lawson (GSFC), J. Schlieder (GSFC), A. Pagan (STScI)
نئے ستاروں کی پیدائش
خلائی چٹان کہلانے والے آسمانی خطے کارینہ کہکشاں میں اس تقریباﹰ انفراریڈ تصویر سے جڑے ڈیٹا کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہاں قریب دو درجن نئے ستارہ دریافت کیے گئے ہیں۔
تصویر: NASA, ESA, CSA AND STSCI
اسٹیفنز کوئنٹیٹ خطے میں ہائیڈروجن ری سائیکلنگ
خلانوردوں نے زمین سے 270 ملین نوری برسوں کے فاصلے پر موجود اسٹیفن کوئنٹیٹ میں ہائیڈروجن کا ری سائیکلنگ پلانٹ دریافت کیا ہے۔ بائیں طرف تصویر میں یہ سبز رنگ سرد ہائیڈروجن گیس کے بادل کا ہے، جو دوسری جانب گرم ہائیڈروجن میں تبدیل ہو رہا ہے۔ درمیان میں تیز رفتار تصادم ہائیڈروجن کے دو سرد بادلوں سےمحصولہ گیس کا منظر ہے۔ دائیں جانب کی تصویر میں ہائیڈروجن کے ٹوٹنے اور چھوٹی بونی کہکشاں بننے کا منظر ہے۔
تصویر: ALMA (ESO/NAOJ/NRAO)/JWST/ P. Appleton (Caltech), B.Saxton (NRAO/AUI/NSF)
ایکسوپلینیٹ LHS 275 پر کرہ ہوائی موجود نہیں
ایکسپو سیارے LHS 275 کا حجم بالکل زمین جیسا ہے، مگر جیمز ویب دوربین سے پتا چلتا ہے کہ اس سیارے پر کرہ ہوائی موجود نہیں ہے۔ سفید ڈیٹا نکات وہ پیلی لکیر ہیں جو یہ بتاتی ہے کہ کوئی سیارہ کرہ ہوائی کا حامل نہیں ہے۔ اگر اس سیارے پر کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہوتی، تو یہ نکتے بنفشی رنگ کے ہوتے اگر یہاں میتھین ہوتی تو یہ لکیر سبز رنگ کی ہوتی۔
تصویر: ILLUSTRATION: NASA, ESA, CSA, Leah Hustak (STScI)/SCIENCE: Kevin B. Stevenson (APL), Jacob A. Lustig-Yaeger (APL), Erin M. May (APL), Guangwei Fu (JHU), Sarah E. Moran (University of Arizona)
کہکشاں جو پہلے کبھی یوں نہ دیکھی
یہ دو تصاویر ایک ہی کہکشاں کی ہیں۔ یہ گیارہ ارب سال کی دوری پر واقع کہکشاں ہے۔ بائیں جانب ہبل اسپیس دوربین سے لی گئی تصویر ہے اور دائیں جانب جیمز ویب ٹیلی اسکوپ سے لی گئی تصویر۔ فرق بالکل واضح ہے۔
تصویر: NASA/CEERS/University of Texas at Austin
مٹر کے دانے جیسی قدیم کہکشائیں
یہ تین دائرے ’مٹر کے دانے‘ کہلانے والی کہکشائیں ہیں۔ یہ چھوٹی کہکشائیں ہیں اور ہم سے دور نہیں۔ مگر جو تصاویر ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں یہ تب کی ہیں جب یہ تیرہ اعشاریہ آٹھ ارب سال پرانی کائنات فقط ایک ارب سال کی تھی۔
تصویر: NASA, ESA, CSA, and STScI
گرد آلود پٹی بناتے ستارے
ستاروں کا یہ جھرمٹ جسے NGC 346 پکارا جاتا ہے، نیبیولا کے بیچ و بیچ پایا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں گرد اور ہائیڈروجن سے ستارے اور سیارے پیدا ہوتے ہیں۔ گلابی رنگ دس ہزار درجے سینٹی گریڈ گرم ہائیڈرجن کو ظاہر کر رہے ہیں جب کہ نارنجی رنگ کثیت اور قریب منفی دو سو درجے سینٹی گریٹ تک ٹھنڈی ہائیڈروجن کا مظہر ہے۔
تصویر: NASA, ESA, CSA, M. Meixner, G. DeMarchi, O. Jones, L. Lenkic, L. Chu, A. Pagan (STScI)