1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رومانوی کشش کا حامل پیرس ایک انوکھے مسئلے سے دوچار

21 نومبر 2021

دو صدیاں پہلے فرانسیسی کسانوں نے پیرس میں زمین کے نیچے مشرومز یا کھمبیاں اگانے کا ایک انقلابی طریقہ ایجاد کیا تھا۔ لیکن آج اس منفرد زرعی ورثے کا تسلسل ماہر کسانوں کی کمی کے باعث خطرے میں پڑ چکا ہے۔

Frankreich Kultivierung von braunen und weissen Champignons in Carrieres-sur-Seine
تصویر: Arnaud Journois/dpa/MAXPPP/picture alliance

 

دنیا بھر میں رنگوں، خوشبوؤں، رومانوی ماحول اور منفرد ثقافت کے مرکز کی حیثیت سے غیر معمولی حد تک مقبول فرانسیسی شہر پیرس کو سیاسی طور پر انقلابوں کا شہر بھی مانا جاتا ہے۔ یورپی تاریخ پیرس سے شروع ہونے والے کئی انقلابوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ چند صدیاں قبل پیرس میں ہی فرانسیسی کسانوں نے چونے کے پتھر کے کانوں کی بھول بھلیوں میں کھمبیوں کی پیداوار کا ایسا تجربہ کیا، جو مشرومز کی کاشت میں ایک انقلاب کی وجہ بن گیا۔ یہ کسان نہ صرف بہت ہی خاص قسم کی کھمبیوں کی کاشت میں کامیاب رہے بلکہ بعد میں مشرومز کی اس قسم کو ایک باقاعدہ قومی ثقافتی ورثہ بھی مانا جانے لگا۔ آج کھمبیوں کی ایسی انوکھی کاشت کا سلسلہ معدوم ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ایسی مشرومز اگانے والے بس مٹھی بھر کسان ہی باقی بچے ہیں۔

اکثر فرانسیسی ورزش کے بغیر فٹنس کے خواہش مند

زیر زمین چونے کے پتھر کی کانوں میں اُگائی جانے والی کھمبیاںتصویر: Arnaud Journois/dpa/MAXPPP/picture alliance

فرانس میں کھمبیوں کی مانگ

فرانسیسی معاشرہ اپنی کئی دیگر روایات اور اقدار کے ساتھ ساتھ اپنے فوڈ کلچر کے اعتبار سے بھی نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ فرانس میں روایتی طور پر اگائی جانے والی سفید 'بٹن مشرومز‘ اور انہی کے نباتاتی خاندان سے تعلق رکھنے والی براؤن مشرومز کی مانگ ہمیشہ کی طرح آج بھی بہت زیادہ ہے۔ پیرس کے  پر رونق مغربی حصے لا ڈیفانس سے تھوڑے سے فاصلے پر واقع 'کارے سو سین‘ نامی علاقے کے ایک کسان شوا مووا وینگ کہتے ہیں، ''مسئلہ گاہک تلاش کرنے کا نہیں، میں جو کچھ بھی اگاتا ہوں، اسے فروخت کر سکتا ہوں۔‘‘ وینگ پیرس کے ایک علاقے میں کھمبیوں کی زیر زمین کاشت کی سب سے بڑی غار چلاتے ہیں، جو دراصل دریائے سین کو اوپر سے جھانکتے ہوئے پہاڑ کے دامن میں ڈیڑھ ہیکٹر رقبے پر پھیلی ہوئی سرنگوں کا ایک جال ہے۔ وہ پیرس کے چند نامور اور انعام یافتہ شیفس کے ساتھ ساتھ مقامی سپر مارکیٹوں کے گاہکوں کو بھی اپنے صارفین میں شمار کرتے ہیں۔ ان کی اگائی ہوئی کھمبیاں ہول سیل مارکیٹ میں تقریباﹰ ساڑھے تین یورو فی کلوگرام کی قیمت پر بکتی ہیں، جو اکفی زیادہ قیمت ہے۔

ابتدائی یورپ کا مقبول کلچر، اشرافیہ اور عوام میں تقسیم

فرانس میں براؤن اور سفید دونوں رنگوں کی کھمبیوں کی کاشت ہوتی ہےتصویر: Arnaud Journois/dpa/MAXPPP/picture alliance

کارکنوں کی کمی

وینگ کو حال ہی میں ایک بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی پھپھوندی جیسی مشرومز کی، جنہیں 'سانپ کی چھتری‘ بھی کہا جاتا ہے، سینکڑوں کلو گرام پیداوار اس لیے ضائع ہونے لگی تھی کہ ان کے پاس اس پیداوار کو چن کر جمع کرنے کے لیے کافی تعداد میں کارکن نہین تھے۔ تب صرف 11 کارکن کام پر آ سکے جبکہ باقی تمام بیماری کے سبب غیر حاضر تھے۔ شوا مووا وینگ کہتے ہیں، ''تب دن بھر گہرا اندھیرا چھایا رہتا اور ایسے میں کارکن پورا دن کام نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ تب وینگ کو خدشہ لاحق رہا کہ ان کی کھمبیوں کی یومیہ پیداوار معمول کی ڈھائی ٹن سے بہت کم  ہو کر صرف تقریباﹰ ڈیڑھ ٹن تک ہی رہے گی۔

وینگ فرانس کے ایسی نایاب کھمبیاں کاشت کرنے والے ان پانچ کسانوں میں سے ایک ہیں، جنہیں مقامی طور پر 'چیمپئنز آف پیرس‘ کہا جاتا ہے۔ پیرس کے شمال میں عرصے سے استعمال میں نہ رہنے والی کانوں سے کھمبیوں کی پیداوار تو اور بھی کم ہو چکی ہے۔

بھوری یا براؤن کھمبیوں کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہےتصویر: Arnaud Journois/dpa/MAXPPP/picture alliance

تاریخی پس منظر

انیسویں صدی کی آخر میں ایسے کاشت کاروں کی تعداد 250 تک تھی۔ اس وقت کسانوں کی بڑی تعداد 'شاہی مشروم‘ کی طرف متوجہ ہوئی۔ تب مشروم کی اس قسم کی بہت زیادہ کاشت بادشاہ لوئی چہاردہم نے ویرسائے میں شروع کرائی تھی۔ اسے غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ تب کسانوں نے یہ بات بھی پتہ چلا لی تھی کہ درجہ حرارت، نمی اور اندھیرا کیسے ہوں تو اس کھمبی کی کافی زیادہ پیداوار سال بھر حاصل کی جا سکتی ہے۔

ان مخصوص شرائط کے تحت مشرومز کی پیداوار کے دوران غاروں کی مٹی کی فضا میں، جو کہ کھاد کو زمینی چونے کے پتھر سے ڈھانپے رکھتی ہے، بالآخر ایسی مشرومز اگائی جا سکتی ہیں، جن کا ذائقہ ایسے ہوتا ہے جیسے کسی خشک میوے کا مغز اور ایسی کھمبیوں میں پانی کا تناسب بھی بہت کم ہوتا ہے۔

فرانسیسی پادریوں کے ہاتھوں لاکھوں بچوں کا جنسی استحصال

فرانس میں زولوجیکل میوزیم بھی قائم ہےتصویر: Getty Images/AFP/S. de Sakutin

پیرس کی کشش

فرانسیسی دارالحکومت پیرس اپنے بے شمار دلچسپ ثقافتی اور تاریخی مقامات، عجائب گھروں اور قدرتی حسن کا ملا جلا شاہکار ہے۔ اس کے وہ بہت سے زیر زمین راستے اور سرنگیں جو اب سیاحوں کے لیے بڑی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں، ماضی میں وہ سب بھی کبھی کھمبیوں کی زیر زمین کاشت ہی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

پیرس شہر کے تیز رفتار پھیلاؤ اور خاص طور پر اس شہر میں زیر زمین میٹرو نیٹ ورک کی تعمیر نے 1900ء کی دہائی کے شروع میں کھمبیوں کے کاشت کاروں کو اس شہر سے باہر دھکیلنا شروع کر دیا تھا۔ پھر بھی 1970ء کی دہائی میں بھی شہر کے مضافاتی علاقوں میں پچاس کے قریب زیر زمین کانیں ایسی تھیں جہاں کھمبیاں اگائی جاتی تھیں اور جنہیں اکثر نسل در نسل لیکن کوئی نہ کوئی مخصوص خاندان ہی چلاتا تھا۔

پیرس کی سماجی اور سیاسی تبدیلی اہم کیوں؟

کھمبیوں کو چُن کر انہیں اکٹھا کرنے کا کام کافی محنت طلب ہوتا ہےتصویر: Arnaud Journois/dpa/MAXPPP/picture alliance

جدید دور میں مشرومز کی بیرون ملک سے سستی درآمد نے مقامی طور پر ایسی کمیاب اور قیمتی کھمبیوں کی کاشت اور پیداوار کے مواقع مزید کم کر دیے۔ اب نیدرلینڈز، پولینڈ اور چین میں کھمبیوں کے کاشت کار چونے کے پتھر کے بجائے دلدلی کیچڑ استعمال کرتے ہیں، جس سے مجموعی پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ فرانس میں دیہی ترقیاتی ایجنسی SAFER سے منسلک زرعی امور کے ماہر موریل لے لوآر کہتے ہیں، ''اب ہمارے ہاں زرعی اسکول میں ایسی مشرومز کی کاشت کی تربیت کا کوئی پروگرام نہیں۔ ایسے افراد کو تلاش کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے، جو ایسی روایتی کاشت کاری کے سلسلے کو اپنے ہاتھوں میں لے سکیں۔‘‘

فرانس میں کھمبیوں کی مجموعی سالانہ پیداوار 90 ہزار ٹن تک رہتی ہے۔ اس میں پیرس اور اس کے گرد و نواح میں روایتی طریقے سے اگائی گئی مشرومز کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔

ک م / م م (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں