روہنگيا مہاجرين کی ميانمار واپسی کی ڈیل ناکاميوں کی زد ميں
31 اکتوبر 2021
بنگلہ ديش سے روہنگيا مہاجرين کی ميانمار واپسی کے معاہدے کو عملی ناکاميوں، حقائق سے ہم آہنگ نہ ہونے اور سفارتی سطح پر متضاد بيانات سے شديد نقصان پہنچا ہے۔
اشتہار
بنگلہ ديش ميں روہنگيا مہاجرين کے ايک کيمپ ميں پناہ گزین اور چھ بچوں کے والد علی نامی ايک مسلمان مہاجر کا کہنا ہے کہ اسے خدشہ ہے کہ اسے ممکنہ طور پر بنگلہ دیش میں طويل عرصے تک قيام کرنا پڑ سکتا ہے۔ علی کے بقول ممکن ہے کہ يہ قيام کئی نسلوں پر محيط ہو۔
ميانمار کی حکومت نے پچھلے سال نومبر ميں اس بات پر اتفاق کيا تھا کہ بنگلہ ديش ميں قيام پذير تقريباً ايک ملين ميں سے ساڑھے سات لاکھ روہنگيا مہاجرين کو واپس لے ليا جائے گا۔ تاہم بنگلہ ديش کی جانب سے ابتدائی طور پر فراہم کردہ روہنگيا مہاجرين کی ايک فہرست ميں درج قريب آٹھ ہزار ناموں ميں سے ميانمار کی حکومت نے اب تک صرف 675 افراد کی واپسی کے ليے تصديق کی ہے۔ اس کی وجہ شناخت کے عمل ميں متضاد معلومات قرار دی گئی ہیں۔ ميانمار نے يہ کہہ رکھا ہے کہ وہ واپسی کے ليے صرف ان روہنگیا مہاجرين کو جائز حقدار سمجھے گا، جو ماضی میں ميانمار ميں اپنی رہائش سے متعلق دستاويزات پيش کر سکيں گے۔
روہنگيا مہاجرين 1978ء سے مختلف ادوار ميں پناہ کے ليے پڑوسی ملک بنگلہ ديش ہجرت کرتے آئے ہيں۔ انہيں ميانمار ميں سکيورٹی فورسز کے ہاتھوں مبينہ تشدد کا سامنا ہے۔ اگست سن 2017 ميں میانمار کی ریاست راکھین میں ملکی فوج کے کریک ڈاؤن کے سبب تقريباً ساڑھے سات لاکھ روہنگيا مسلمان فرار ہو کر زیادہ تر بنگلہ ديش کے ضلع کوکس بازار ميں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ ميانمار کی فوج کی اس کارروائی کو ’نسل کشی‘ سے تعبير کر چکا ہے جبکہ ميانمار کی حکومت اس موقف کو بے بنياد قرار ديتے ہوئے ايسی خبروں کو مسترد کرتی ہے۔
روہنگيا مہاجرين کی واپسی کے معاملے پر بنگلہ ديش اور ميانمار کی حکومتوں کے مابين اتفاق رائے ہوئے اب پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ليکن ابھی تک يہ ڈيل عملی شکل اختيار نہيں کر پائی۔ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر پانچ افراد پر مشتمل ايک روہنگيا خاندان کو واپس ميانمار بھيجا گيا تھا۔
ڈھاکا ميں بنگلہ ديشی وزير داخلہ نے اسے ’محض ایک تشہیری مہم اور بے معنی‘ قرار ديا تھا۔ اسد الزمان خان نے خبر رساں ادارے اے ايف پی سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ وہ جو بھی کہتے ہيں، ميانمار کی حکومت اسے مان تو ليتی ہے ليکن اب تک وہ ایسی اعتماد سازی نہیں کر سکی، جس کی بنياد پر روہنگيا مہاجرين کی واپسی ممکن ہو سکے۔
ميانمار کی حکومت روہنگيا مسلمانوں کو ایک ’بنگالی‘ اقليت قرار ديتی ہے۔ پچھلے دو سالوں ميں ميانمار کی سکيورٹی فورسز کے کريک ڈاؤن کے سبب وسيع پيمانے پر نقل مکانی کے تناظر ميں ميانمار کی حکومت پر عالمی برادری نے کافی دباؤ ڈالا ہے اور اسی دباؤ کے نتيجے ميں وہ روہنگيا مہاجرین کو واپس آنے کی اجازت دینے پر رضامند تو ہو گئی تھی تاہم اس معاہدے پر عمل درآمد کی راہ ميں ابھی تک کئی سفارتی اور دستاويزی رکاوٹيں موجود ہيں۔
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
روہنگیا مسلمانوں کا بحران دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اب تک قریب تین لاکھ ستر ہزارروہنگیا مسلمان میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے روہنگیا اقلیت کے ہجرت کے اس سفر کی تصویری کہانی مرتب کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
طویل مسافت
میانمار میں راکھین صوبے سے ہزارہا روہنگیا مہاجرین ایک طویل مسافت طے کر کے بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو گود میں لاد کر دلدلی راستوں پر پیدل سفر آسان نہیں۔ یہ تصویر بنگلہ دیش میں ٹیکناف کے لمبر بل علاقے کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کیچڑ بھرا راستہ
اس تصویر میں عورتوں اور بچوں کو کیچڑ سے بھرے پیروں کے ساتھ کچے راستے پر چلتے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
بیمار بھی تو اپنے ہیں
اپنا گھر چھوڑنے کی تکلیف اپنی جگہ لیکن گھر کے بزرگوں اور بیمار افراد کو چھوڑنا ممکن نہیں۔ یہ دو روہنگیا افراد اپنے گھر کی ایک معذور خاتون کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کریک ڈاؤن کے بعد
میانمار کی فوج کے کریک ڈاؤن سے شروع ہونے والے تنازعے میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے روہنگیا افراد میں زیادہ تعداد بھی عورتوں اور بچوں ہی کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
منظم حملے
پچیس اگست کو میانمار میں روہنگیا جنگجوؤں نے پولیس تھانوں پر منظم حملے کیے تھے، جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی شروع کر دی تھی۔ جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے مابین شروع ہونے والی ان جھڑپوں کے باعث زیادہ تر نقصان روہنگیا باشندوں کو ہی اٹھانا پڑا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کئی سو ہلاکتیں
محتاط اندازوں کے مطابق اس تشدد کے نتیجے میں کم از کم چار سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثریت روہنگیا کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
نف دریا
میانمار سے بنگلہ دیش کی سرحد عبور کرنے کے لیے دریا بھی پار کرنا پڑتا ہے۔ درمیان میں ’نف‘ نامی دریا پڑتا ہے، جسے کشتی کے ذریعے عبور کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
الزام مسترد
میانمار کی حکومت ایسے الزامات مسترد کرتی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور انہیں ہلاک یا ملک بدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
سرحدی راستے
بنگلہ دیش پہنچنے کے لیے میانمار سے روہنگیا مسلمان مختلف سرحدی راستے اپناتے ہیں۔ زیادہ تر ٹیکناف اور نیخن گھڑی کی طرف سے آتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
گھروں کے جلنے کا دھواں
روہنگیا کمیونٹی کے گھروں کے جلنے کا دھواں بنگلہ دیش کے ٹیکناف ریجن سے گزرنے والے دریائے نف کے اس پار سے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
چھبیس سو مکانات نذر آتش
دو ستمبر کو میانمار کی حکومت کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ شمال مغربی ریاست راکھین میں کئی دہائیوں کے دوران پیش آنے والے ان بدترین واقعات میں 2600 مکانات نذر آتش کیے جا چکے ہیں۔ تاہم حکومت کا الزام تھا کہ گھروں کو آگ لگانے کے ان واقعات میں روہنگیا ہی ملوث ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
جانور بھی ساتھ
بنگلہ دیش میں نقل مکانی کر کے آنے والے بعض روہنگیا افراد اپنے جانوروں کو ساتھ لانا نہیں بھولے۔ ایسی صورت میں یہ مہاجرین نف دریا کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کوکس بازار
مہاجرین کی کچھ تعداد اب تک بنگلہ دیش کے کوکس بازار ضلع میں قائم عارضی کیمپوں میں جگہ ملنے سے محروم ہے۔ اس تصویر میں چند مہاجرین کوکس بازار کے قریب ٹیکناف ہائی وے پر کھڑے جگہ ملنے کے منتظر ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
سڑک کنارے بسیرا
جن لوگوں کو کیمپوں میں جگہ نہیں ملتی وہ سڑک کے کنارے ہی کہیں بسیرا کر لیتے ہیں۔ اس روہنگیا خاتون کو بھی چھوٹے بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے رات گزارنی پڑ رہی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
زیادہ بڑے شیلٹر
ٹیکناف کے علاقے میں بنگلہ دیشی حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے زیادہ بڑے شیلٹر بنا رہی ہے تاکہ جگہ کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
دو لاکھ سے زیادہ بچے
میانمار کے روہنگیا مہاجرین میں دو لاکھ سے زیادہ بچے ہیں جو ان پناہ گزینوں کا ساٹھ فیصد ہیں۔
میانمار سے ان مہاجرین کی زیادہ تعداد جنوب مشرقی بنگلہ دیش کے ضلعے کاکس بازار پہنچتی ہے، کیونکہ یہی بنگلہ دیشی ضلع جغرافیائی طور پر میانمار کی ریاست راکھین سے جڑا ہوا ہے، جہاں سے یہ اقلیتی باشندے اپنی جانیں بچا کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
مہاجرین کی کہانیاں
بنگلہ دیش پہنچنے والے ہزارہا مہاجرین نے بتایا ہے کہ راکھین میں سکیورٹی دستے نہ صرف عام روہنگیا باشندوں پر حملوں اور ان کے قتل کے واقعات میں ملوث ہیں بلکہ فوجیوں نے ان کے گھر تک بھی جلا دیے تاکہ عشروں سے راکھین میں مقیم ان باشندوں کو وہاں سے مکمل طور پر نکال دیا جائے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
اقوام متحدہ کا مطالبہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حال ہی میں میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ راکھین میں حالات کو قابو میں لانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں کئی دہائیوں سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے اور ینگون حکومت انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
بیس ہزار مہاجرین روزانہ
رواں ہفتے عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے کہا تھا کہ روزانہ کی بنیادوں پر اوسطا بیس ہزار روہنگیا بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں۔ اس ادارے نے عالمی برداری سے ان مہاجرین کو فوری مدد پہنچانے کے لیے 26.1 ملین ڈالر کی رقوم کا بندوبست کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
تین لاکھ ستر ہزار پناہ گزین
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک تین لاکھ ستر ہزار روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔ ان افراد کو بنگلہ دیشی علاقے کوکس بازار میں بنائے گئے عارضی کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
خوراک کی قلت
عالمی ادارہ مہاجرت کے مطابق بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ انہیں بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا بھی دستیاب نہیں اور خوراک کی قلت کا بھی سامنا ہے۔