روہنگيا مہاجرين کے بحران کے حل کے ليے يورپی يونين متحرک
عابد حسین
20 نومبر 2017
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈریکا موگرینی نے میانمار کی لیڈر آنگ سان سوچی سے پیر کے روز ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں روہنگیا مہاجرین کے بحران پر ہونے والے مذاکرات کو موگرینی نے حوصلہ افزاء قرار دیا ہے۔
اشتہار
پیر بیس نومبر کو میانمار کے دارالحکومت نپ یا دا میں یورپی یونین کی خارجہ امور کے شعبے کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی کے ساتھ ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے موگرینی نے کہا کہ روہنگیا مہاجرین کے معاملے پر بات چیت مثبت رہی ہے اور اس بحران کے خاتمے کے لیے مناسب پیش رفت ہوئی ہے۔
آنگ سان سوچی سے ملاقات سے قبل فیڈریکا موگرینی نے اتوار انیس نومبر کو بنگلہ دیشی شہر کوکس بازار میں روہنگیا مہاجرین کے ایک بڑے کمپ کا بھی دورہ کیا تھا۔ میانمار کے دارالحکومت نپ یا دا میں موگرینی نے بنگلہ دیشی، میانمار، جرمنی، سویڈن اور جاپان کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ایک اجلاس میں بھی شرکت کی۔
اس ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش سے روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی کے حوالے سے وہ بہت پُرامید ہیں اور اجلاس میں انتہائی مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ اسی اجلاس میں میانمار اور بنگلہ دیش کے درمیان روہنگیا مہاجرین کی واپسی کے سمجھوتے کو بھی حتمی شکل دی گئی۔
جرمنی کے زیگمار گابریل، سویڈن کی خاتون وزیر مارگٹ والسٹروم اور جاپان کے تارو کونو بھی پیر کے روز میانمار میں ہونے والے اجلاس میں شریک تھے۔ ان کے ہمراہ بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ ابو الحسن محمود علی بھی میانمار گئے تھے۔ ان تمام وزرائے خارجہ نے بھی یورپی یونین کی فیڈریکا موگرینی کے ہمراہ روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کیا تھا۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنوں اور تنظیموں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش سے روہنگیا مہاجرین کی محفوظ اور جلد واپسی آسان کام نہیں اور انہیں واپسی کے سفر میں بھی پرتشدد حالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران امریکی وزیر خارجہ نے بھی کہا تھا کہ روہنگیا مہاجرین پر ہونے والے تشدد کے ناقابلِ تردید ثبوت دستیاب ہیں۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘