امریکا نے میانمار میں روہنگیا مسلم برادری کے خلاف جاری پر تشدد کارروائیوں کو ’نسل کشی‘ قرار دیا ہے۔ اس تناظر میں واشنگٹن انتظامیہ نے میانمار کے فوجی حکام کو جرمانے اور سزاؤں کی دھمکی بھی دی ہے۔
اشتہار
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے بقول روہنگیا کے خلاف بے رحمانہ کارروائی میں شریک تمام فوجی اہلکاروں کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ٹلرسن نے ان ’ناقابل برداشت مصائب‘ کی ذمہ داری میانمار کی فوج اور نگرانی پر مامور مقامی نمائندوں پر عائد کی۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
8 تصاویر1 | 8
میانمار کی فوج روہنگیا عسکریت پسندوں کو اس بحران کی اصل وجہ قرار دیتی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے بقول، ’’کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی کو جواز کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس دہشت ناک سفاکی کو حق بجانب قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
ریکس ٹلرسن نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ موجودہ حقائق کا بہت باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد یہ واضح ہوا ہے کہ شمالی ریاست راکھین میں روہنگیا کی ’نسل کشی‘ جاری ہے، ’’جو بھی ان زیادتیوں میں ملوث ہے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔‘‘ ان کے بقول امریکا میانمار پر نہیں بلکہ صرف اس تشدد میں ملوث افراد کے خلاف پابندیاں عائد کرنا چاہتا ہے۔
میانمار کے روہنیگا راکھین ریاست سے فرار ہو کر بنگلہ دیش میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اگست سے اس ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور اب بنگلہ دیش میں روہنگیا برادری کے چھ لاکھ سے زائد افراد موجود ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے ہی میانمار کا دورہ کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد یہ کسی اعلی امریکی اہلکار کا اس ملک کا پہلا دورہ تھا۔ امریکی دفتر خارجہ یہ جائزہ بھی لے رہا ہے کہ کیا راکھین میں رونما ہونے والے واقعات انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے بھی آتے ہیں۔