روہنگیا بحران : سلامتی کونسل کا دورہء میانمار و بنگلہ دیش
27 اپریل 2018
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا وفد 28 اپریل کو بنگلہ دیش اور میانمار کا دورہ کر رہا ہے، جہاں وہ روہنگیا بحران کا جائزہ لینے کے بعد مہاجرین کے معاملے پر اپنا آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرے گا۔
اشتہار
میانمار اُس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنا جب ملک کی ریاست راکھین میں بسنے والے روہنگیا مسلمان اقلیت کے خلاف اگست سن 2017 میں ہوئے فوجی آپریشن کے بعد سے اب تک سات لاکھ سے زائد افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے اکثر اس وقت بنگہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں۔
سکیورٹی کونسل کی جانب سے بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریتی آبادی پر مشتمل اس ملک پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے جاری مسلمانوں کے خلاف تعصب پر منبی رویہ ترک کرے اور ان مہاجرین کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنائے۔
اقوام متحدہ کی کونسل کے دورے کا آغاز بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کے سب سے بڑے کیمپ کاکس بازار سے ہو گا جہاں اقوام متحدہ کے سفیر کیمپوں میں مقیم افراد سے ملاقات کریں گے۔ جس کے بعد کویت، برطانیہ اور پیرو سمیت دیگر ممالک کے نمائندوں پر مشتمل سکیورٹی کانسل کا وفد راکھین ریاست کا بھی دورہ کرے گا۔
کویتی سفیر منصور العتیبی کا اس دورے کے حوالے سے کہنا ہے کہ اس کا اصل مقصد میانمار کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی اس معاملے کو نہایت قریب سے نہ صرف دیکھ رہی ہے بلکہ اس مسئلے کے حل کی کوششوں میں بھی دلچسپی رکھتی ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا، ’’ سات لاکھ لوگوں کو اپنا ملک چھوڑنا پڑا اور وہ اب واپس اپنے ملک نہیں جا سکتے۔ یہ انسانی المیہ ہے۔‘‘
سلامتی کونسل کے ارکان اس چار روزہ دورے میں میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی سے بھی ملاقات کریں گے۔ سوچی کو راکھین کی صورتحال پر خاموشی کے باعث دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘