بھارتی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ نئی دہلی حکومت میانمار کے سکیورٹی تحفظات کو سمجھتی ہے۔ دوسری طرف عالمی برداری نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست راکھین میں روہنگیا مسلم کمیونٹی کے خلاف جاری ریاستی کریک ڈاؤن کو فوری بند کیا جائے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے حوالے سے بتایا ہے کہ انہوں نے اپنے دورہ میانمار کے دوران بروز بدھ آنگ سان سوچی سے ملاقات میں کہا ہے کہ بھارت میانمار کے سکیورٹی تحفظات کو سمجھتا ہے۔
مودی نے کہا کہ راکھین میں ’انتہا پسندانہ تشدد‘ بند ہونا چاہیے۔
مودی نے کہا کہ اس تنازعے کے فریقین کو میانمار کے قومی اتحاد کا احترام کرنا چاہیے۔
راکھین میں مبینہ روہنگیا جنگجوؤں کے خلاف جاری ریاستی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں سوا لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں.
اس صورتحال میں اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ روہنگیا کمیونٹی کے خلاف اس تشدد کے ’نسل کشی‘ کی جانب بڑھنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم مودی کا دورہ میانمار دراصل دونوں ممالک کے مابین اقتصادی تعلقات میں وسعت دینے کی خاطر عمل میں لایا گیا ہے۔ خطے میں چین کی بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے تناظر میں بھارت میانمار کے ساتھ تعلقات میں مزید بہتری لانے کی کوششوں میں ہے۔ حالیہ برسوں کے ان دونوں ممالک کے مابین ہونے والی تجارت کے حجم میں بھی اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم مودی کے ساتھ ملاقات کے بعد سوچی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کے ملک میں حملوں کے تناظر میں نئی دہلی حکومت کی مذمت پر وہ شکر گزار ہیں۔
سوچی کے مطابق اس صورتحال پر قابو پانے کی خاطر دونوں ممالک مل کر کام کریں گے۔ سوچی نے کہا، ’’ہمیں یقین ہے کہ ہم مل کر اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہمارے ملکوں میں دہشت گرد پنپ نہ سکیں۔‘‘ اس موقع پر مودی نے کہا کہ علاقائی سطح پر بھارت اور میانمار کے سکیورٹی تحفظات مشترکہ ہیں۔
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Aung Shine Oo
14 تصاویر1 | 14
ہندو قوم پرست سیاستدان مودی نے سوچی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’راکھین میں انتہا پسندانہ تشدد بالخصوص سکیورٹی فورسز پر تشدد اور معصوم شہریوں کو ہونے والے نقصان پر پر ہم آپ کے تحفظات کو سمجھتے ہیں۔‘‘
انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام فریقین مل کر ایک ایسا حل تلاش کر لیں گے، جس سے میانمار کی علاقائی خودمختاری اور اتحاد پر سمجھوتہ نہ ہو اور ساتھ ہی امن، انصاف، انسانی عظمت اور جمہوری اقدار کا فروغ ممکن ہو سکے۔
یہ امر اہم ہے کہ بھارت میں تقریبا چالیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی پر مودی حکومت نے سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ نئی دہلی حکومت حالیہ برسوں کے دوران بھارت آنے والے ان روہنگیا افراد کو ملک بدر کرنے کا عہد کر چکی ہے۔ اس پیشرفت پر بھارت میں انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان شدید تنقید بھی کر چکے ہیں۔