روہنگیا حملہ آوروں کے مبینہ ’منظم حملوں‘ میں 71 ہلاکتیں
عابد حسین
25 اگست 2017
میانمار کی فوج نے الزام عائد کیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے حملوں میں فریقین کی مجموعی ہلاکتیں 71 تک پہنچ گئی ہیں۔ یہ مبینہ حملے مغربی ریاست راکھین کی چیک پوسٹوں اور ایک فوجی اڈے پر کیے گئے۔
اشتہار
میانمار کی فوج نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ شورش زدہ مغربی ریاست راکھین میں قائم چوبیس چیک پوسٹوں اور ایک فوجی بیس پر مسلح روہنگیا مسلمانوں نے منظم انداز میں حملے کیے ہیں۔ یہ حملے جمعرات چوبیس اگست اور جمعہ پچیس اگست کی درمیانی شب کے درمیان کیے گئے۔
ان حملوں کی ذمہ داری اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (ARSA) یا حرکة الیقین نے قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں پہلی مرتبہ اسی مسلح تنظیم نے میانمار کی پولیس پر حملوں کا اعتراف اور ذمہ داری قبول کی تھی۔
میانمار کی لیڈر آنگ سان سوچی کے دفتر نے تصدیق کی ہے کہ ان حملوں میں انسٹھ حملہ مارے گئے ہیں جبکہ بارہ سکیورٹی اہلکاروں کی موت بھی واقع ہوئی ہے۔ یہ ہلاکتیں مبینہ طور پر مسلح رونگیا مسلمانوں کے اچانک حملوں کے دوران مختلف مقامات پر ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ نے ان حملوں کی مذمت کی ہے۔
ینگون سے جاری ہونے والے حکومتی بیان میں کہا گیا کہ روہنگیا باغیوں نے راکھین ریاست کے مقام مؤنگ ڈا میں قائم چوکیوں پر نصف شب میں حملے کیے۔ اس بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ مسلح افراد نے ان حملوں میں دستی بموں کا بے دریغ استعمال کیا اور کئی مقامات پر دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ صبح تک جاری رہا۔
میانمار کی فوج نے بتایا کہ ان حملوں میں پچاس مختلف دیہات کے ایک ہزار روہنگیا افراد شریک تھے۔ مغربی راکھین میں سلامتی کی صورت حال رواں مہینے کے اوائل سے خراب ہونا شروع ہو گئی تھی جب سکیورٹی فورسز نے مشتبہ افراد کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق روہنگیا مہاجرین کے حملے امکاناً اسی آپریشن کا جواب ہو سکتا ہے۔
یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے روہنگیا مہاجرین کی حالت زارکو بہتر کرنے کے لیے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔ میانمار میں تقریباً گیارہ لاکھ روہنگیا مہاجرین کو مقامی بدھ مت کی آبادی کے سخت ناروا سلوک کا سامنا ہے۔ ان مہاجرین کو بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔