اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار برائے میانمار یانگھی لی شورش زدہ صوبے راکھین پہنچ گئی ہیں، جہاں وہ ملکی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے روہنگیا مسلمانوں پر مبینہ ظلم و ستم کی چھان بین کریں گی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار برائے میانمار یانگھی لی اپنے بارہ روزہ دورے کے دوران روہنگیا مسلم برادری پر بڑھتے ہوئے تشدد کی چھان بین کرنے کے بعد ایک رپورٹ مرتب کریں گی۔ انہیں بدھ بنیاد پرستوں سے خطرات لاحق ہیں جبکہ ان کے گزشتہ دورہ میانمار کے دوران انہی بنیاد پرستوں نے لی کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ لی کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تشویش کے اظہار پر انہیں اس ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
میانمار بالخصوص راکھین میں روہنگیا مسلمان کمیونٹی کو مبینہ فوجی کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ بنگلہ دیش فرار ہونے والے روہنگیا افراد نے بتایا ہے کہ ملکی فوجی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں جبکہ مردوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق ان روہنگیا مسلمانوں نے یہ بھی بتایا کہ راکھین میں ان کی املاک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق انہی پرتشدد کارروائیوں کے باعث کم ازکم 65 ہزار روہنگیا باشندے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور بھی ہو چکے ہیں۔
راکھین صوبے میں حکمران سیاسی جماعت اے این سی سے وابستہ سنیئر سیاستدان Khine Pyi Soe نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ان کی جماعت کا کوئی بھی رکن لی سے نہیں ملے گا، ’’انہوں نے ہم سے ملنے کی پیشکش کی ہے لیکن ہمارا ان سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘‘ یہ سیاستدان ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ روہنگیا کمیونٹی کے کسی بھی فرد کو میانمار کی شہریت نہیں دی جانا چاہیے۔ وہ اصرار کرتے ہیں کہ پارلیمان کی سطح پر کی جانے والی ایسی کسی بھی کوشش کی سخت مخالفت کی جائے گی۔
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Aung Shine Oo
14 تصاویر1 | 14
راکھین کا شمالی علاقہ گزشتہ برس اکتوبر سے میانمار کی فوج کے کنٹرول میں ہے۔ حکومت اس صوبے میں بدامنی کے لیے روہنگیا باغیوں کو ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملکی فوج اس علاقے میں سرحدی پولیس چوکیوں پر حملوں میں ملوث مشتبہ روہنگیا باغیوں کی تلاش میں ہے۔ اس صورتحال میں میانمار کی جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔ نوبل امن انعام یافتہ سوچی نے ابھی تک اس شورش پر کوئی براہ راست بیان تک بھی جاری نہیں کیا۔
اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار برائے میانمار یانگھی لی نے راکھین کی صورتحال کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس صوبے میں مسلمان اقلیت کے ساتھ جنسی زیادتی، قتل، ظلم و ستم اور لوٹ مار کے الزامات کی آزادانہ طور پر تحقیقات کرائی جانا چاہییں۔ میانمار روانہ ہونے سے قبل اس خاتون سفارت کار نے کہا کہ راکھین کی صورتحال ابتر ہو رہی ہے اور اس تناظر میں عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔