روہنگیا مسلمانوں پر ’منظم مظالم‘ نہیں کیے گئے، حکومتی رپورٹ
عاطف بلوچ، روئٹرز
6 اگست 2017
میانمار میں ایک حکومتی کمیشن نے کہا ہے کہ ملکی سکیورٹی فورسز روہنگیا مسلم خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، اس برادری کے افراد کے قتل یا ان کی املاک کو نقصان پہنچانے کے منظم واقعات کی مرتکب نہیں ہوئی تھیں۔
اشتہار
اقوام متحدہ نے الزام عائد کیا ہے کہ گزشتہ برس میانمار کی ریاست راکھین میں ملکی دستوں نے روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن میں وسیع پیمانے پر مظالم ڈھائے تھے۔ اس مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے مطابق ملکی فوج نے ان کی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں کیں اور مردوں کو ہلاک کیا۔ یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ اس کریک ڈاؤن کے دوران روہنگیا مسلمانوں کی املاک کو بھی دانستہ طور پر تباہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے اس تناظر میں ایک خصوصی رپورٹ مرتب کی تھی، جس میں ان الزامات کو دوہرایا گیا تھا۔
تاہم چھ اگست بروز اتوار میانمار کی حکومت کی طرف سے بنائے گئے ایک خصوصی کمیشن نے اقوام متحدہ کے یہ الزامات مسترد کر دیے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں ملکی سکیورٹی فورسز نے راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔
تب میانمار حکومت کا الزام تھا کہ اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے جنگجو بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل علاقوں میں سکیورٹی چیک پوائنٹس پر حملوں میں ملوث تھے۔ تاہم میانمار کی حکومت نے ان واقعات کی چھان بین کی خاطر اقوام متحدہ کے آزاد معائنہ کاروں کو متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Aung Shine Oo
14 تصاویر1 | 14
انسانی حقوق کے سرکردہ ادارے یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ راکھین میں روہنگیا کمیونٹی کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن میں شاید ملکی سکیورٹی دستوں نے اس اقلیت کی نسل کشی کی کوشش کی تھی۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ بھی غیرجانبدارنہ اور آزاد چھان بین کرانے کا مطالبہ کرتا ہے۔
تاہم حکومتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ملکی دستے روہنگیا کمیونٹی کے خلاف کسی منظم حملے میں ملوث نہیں پائے گئے۔ اس کمیشن کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق روہنگیا اقلیت پر مظالم ڈھائے جانے کے کچھ واقعات بظاہر جعلی معلوم ہوتے ہیں جبکہ دیگر الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد دستیاب نہیں۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کریک ڈاؤن کے دوران ہی حکومت کو بین الاقوامی این جی اوز اور میڈیا کو شورش زدہ علاقوں میں جانے کی اجازت دے دینا چاہیے تھی تاکہ ’غلط فہمیاں‘ پیدا ہی نہ ہوتیں۔
مزید کہا گیا ہے کہ اگر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کوئی ’سخت ایکشن‘ لیا بھی گیا تو اس میں اعلیٰ سکیورٹی اہلکار ملوث نہیں تھے۔ اس تناظر میں تجویز دی گئی ہے کہ جونیئر سکیورٹی اہلکاروں کو تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مقامی سطح پر بدعنوانی کے خاتمے کی ضرورت ہے اور مشتبہ جنگجوؤں کے خلاف عدالتی کارروائی میں شفافیت پیدا کی جائے۔
میانمار سے روہنگیا مسلمانوں کی ہجرت کا سلسلہ بدستور جاری