روہنگیا مسلمانوں کی سعودی امداد ’اقتصادی مفادات کا تحفظ‘
William Yang/ بینش جاوید
22 ستمبر 2017
ماضی میں بھی روہنگیا مہاجرین نے اسلام کا گڑھ تصور کیے جانے والے ملک سعودی عرب میں پناہ حاصل کی تھی اور موجودہ بحران میں بھی ریاض نے روہنگیا مہاجرین کے لیے ایک امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے، لیکن اس کے پیچھے محرکات کیا ہیں؟
اشتہار
ساٹھ کی دہائی میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے دورِ بادشاہی میں ہزاروں روہنگیا مسلمان برما (جو اب میانمار ہو چکا ہے) کے مغربی صوبے اراکان سے ہجرت کر کے سعودی شہر مکہ پہنچے تھے۔ تاہم میانمار کے موجودہ بحران میں سعودی عرب یا دیگر مسلم ممالک کی طرف سے کوئی خاص ردعمل دکھنے میں نہیں آیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سعودی حکومت نے میانمار بحران کی تازہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے رواں ہفتے ہنگامی بنیادوں پر پندرہ ملین ڈالر کی امداد روہنگیا پناہ گزینوں کو دینے کا وعدہ کیا ہے۔
خلیجی اور پاکستانی رہنماوں نے بھی کہا ہے کہ میانمار کے متاثرین کو فوری اور ترجیحی بنیادوں پر انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ تاہم اس بحران کے خاتمے کی خاطر کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس صورتحال میں مسلم ممالک کی جانب سے مضبوط طرز عمل کا فقدان نظر آتا ہےکیونکہ جزوی طور پر اس میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے منافع بخش کاروباری مفادات بھی شامل ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں پہلے ہی مہاجرت کا بحران جنم لے چکا ہے اور گزشتہ کچھ سالوں سے اس میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ شام ، یمن، عراق اور افغانستان میں جاری خانہ جنگی کی کیفیت سے قریبی خطے میں ہجرت کا سلسلہ بڑھا ہے۔
میانمار سے تقریبا پانچ لاکھ سے زائد روہنگیا افراد بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں، جو میانمار میں آباد روہنگیا مسلم کمیونٹی کا نصف بنتا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے میانمار میں جاری فوجی کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا میں ظلم کا سب سے زیادہ شکار ہونے والی قوم قرار دیا ہے۔
سعودی عرب تیل برآمد کرنے والا دنیا کا ایک بڑا ملک ہے جو خام تیل کی عالمی منڈی میں چین کو تیل فراہم کرنے کے سلسلے میں روس کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر ریاض حکومت میانمار کی مدد کر رہا ہے تاکہ اس کی پائپ لائنز اس ملک سے ہوتے ہوئے چین تک پہنچ سکیں۔
اسی تناظر میں سعودی عرب نے حال ہی میں خام تیل کی ایک پائپ لائن کا افتتاح کیا، جو میانمار کے راستے چین کے صوبے یوننان تک جاتی ہے۔ سات سو ستر کلومیٹر طویل یہ پائپ لائن خلیج بنگال سے شروع ہوکر مغربی میانمار کی راکھین ریاست تک پہنچتی ہے، جہاں روہنگیا افراد کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ سن 2011 میں سعودی کمپنی’آرامکو‘ اور چینی کمپنی ’پیٹروچائنہ‘ کے مابین ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت اسی پائپ لائن کے ذریعے یومیہ دولاکھ بِیرل خام تیل چین کو ترسیل کیا جانا تھا۔
سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینئر ایسوسی ایٹ بوکانگ چین کی عالمی پٹرولیم پالیسی کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب روہنگیا بحران پر کھل کر بات نہیں کرے گا کیونکہ اس کے میانمار سے مفادات جڑے ہیں۔
’کنڑی رسک سلوشنز‘ نامی کنسلٹنگ فرم کے بانی ڈینئیل ویگنر کے مطابق سعودی عرب میانمار اور جنوب مشرقی ایشیا میں اپنے اقتصادی اور سیاسی ایجنڈےکے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے تاہم اس کے باوجود وہ یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے ماضی میں بھی روہنگیا پناہ گزینوں کو مدد فراہم کی تھی اور اب بھی ان کی مدد کی جا رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ البتہ سعودی عرب کا مقصد صرف یہی ہے کہ میانمار کی ریاست راکھین میں اس کی قدرتی گیس اور خام تیل کی پائپ لائنوں کو نقصان نہ ہو۔
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
روہنگیا مسلمانوں کا بحران دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اب تک قریب تین لاکھ ستر ہزارروہنگیا مسلمان میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے روہنگیا اقلیت کے ہجرت کے اس سفر کی تصویری کہانی مرتب کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
طویل مسافت
میانمار میں راکھین صوبے سے ہزارہا روہنگیا مہاجرین ایک طویل مسافت طے کر کے بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو گود میں لاد کر دلدلی راستوں پر پیدل سفر آسان نہیں۔ یہ تصویر بنگلہ دیش میں ٹیکناف کے لمبر بل علاقے کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کیچڑ بھرا راستہ
اس تصویر میں عورتوں اور بچوں کو کیچڑ سے بھرے پیروں کے ساتھ کچے راستے پر چلتے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
بیمار بھی تو اپنے ہیں
اپنا گھر چھوڑنے کی تکلیف اپنی جگہ لیکن گھر کے بزرگوں اور بیمار افراد کو چھوڑنا ممکن نہیں۔ یہ دو روہنگیا افراد اپنے گھر کی ایک معذور خاتون کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کریک ڈاؤن کے بعد
میانمار کی فوج کے کریک ڈاؤن سے شروع ہونے والے تنازعے میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے روہنگیا افراد میں زیادہ تعداد بھی عورتوں اور بچوں ہی کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
منظم حملے
پچیس اگست کو میانمار میں روہنگیا جنگجوؤں نے پولیس تھانوں پر منظم حملے کیے تھے، جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی شروع کر دی تھی۔ جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے مابین شروع ہونے والی ان جھڑپوں کے باعث زیادہ تر نقصان روہنگیا باشندوں کو ہی اٹھانا پڑا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کئی سو ہلاکتیں
محتاط اندازوں کے مطابق اس تشدد کے نتیجے میں کم از کم چار سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثریت روہنگیا کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
نف دریا
میانمار سے بنگلہ دیش کی سرحد عبور کرنے کے لیے دریا بھی پار کرنا پڑتا ہے۔ درمیان میں ’نف‘ نامی دریا پڑتا ہے، جسے کشتی کے ذریعے عبور کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
الزام مسترد
میانمار کی حکومت ایسے الزامات مسترد کرتی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور انہیں ہلاک یا ملک بدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
سرحدی راستے
بنگلہ دیش پہنچنے کے لیے میانمار سے روہنگیا مسلمان مختلف سرحدی راستے اپناتے ہیں۔ زیادہ تر ٹیکناف اور نیخن گھڑی کی طرف سے آتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
گھروں کے جلنے کا دھواں
روہنگیا کمیونٹی کے گھروں کے جلنے کا دھواں بنگلہ دیش کے ٹیکناف ریجن سے گزرنے والے دریائے نف کے اس پار سے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
چھبیس سو مکانات نذر آتش
دو ستمبر کو میانمار کی حکومت کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ شمال مغربی ریاست راکھین میں کئی دہائیوں کے دوران پیش آنے والے ان بدترین واقعات میں 2600 مکانات نذر آتش کیے جا چکے ہیں۔ تاہم حکومت کا الزام تھا کہ گھروں کو آگ لگانے کے ان واقعات میں روہنگیا ہی ملوث ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
جانور بھی ساتھ
بنگلہ دیش میں نقل مکانی کر کے آنے والے بعض روہنگیا افراد اپنے جانوروں کو ساتھ لانا نہیں بھولے۔ ایسی صورت میں یہ مہاجرین نف دریا کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کوکس بازار
مہاجرین کی کچھ تعداد اب تک بنگلہ دیش کے کوکس بازار ضلع میں قائم عارضی کیمپوں میں جگہ ملنے سے محروم ہے۔ اس تصویر میں چند مہاجرین کوکس بازار کے قریب ٹیکناف ہائی وے پر کھڑے جگہ ملنے کے منتظر ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
سڑک کنارے بسیرا
جن لوگوں کو کیمپوں میں جگہ نہیں ملتی وہ سڑک کے کنارے ہی کہیں بسیرا کر لیتے ہیں۔ اس روہنگیا خاتون کو بھی چھوٹے بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے رات گزارنی پڑ رہی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
زیادہ بڑے شیلٹر
ٹیکناف کے علاقے میں بنگلہ دیشی حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے زیادہ بڑے شیلٹر بنا رہی ہے تاکہ جگہ کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
دو لاکھ سے زیادہ بچے
میانمار کے روہنگیا مہاجرین میں دو لاکھ سے زیادہ بچے ہیں جو ان پناہ گزینوں کا ساٹھ فیصد ہیں۔
میانمار سے ان مہاجرین کی زیادہ تعداد جنوب مشرقی بنگلہ دیش کے ضلعے کاکس بازار پہنچتی ہے، کیونکہ یہی بنگلہ دیشی ضلع جغرافیائی طور پر میانمار کی ریاست راکھین سے جڑا ہوا ہے، جہاں سے یہ اقلیتی باشندے اپنی جانیں بچا کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
مہاجرین کی کہانیاں
بنگلہ دیش پہنچنے والے ہزارہا مہاجرین نے بتایا ہے کہ راکھین میں سکیورٹی دستے نہ صرف عام روہنگیا باشندوں پر حملوں اور ان کے قتل کے واقعات میں ملوث ہیں بلکہ فوجیوں نے ان کے گھر تک بھی جلا دیے تاکہ عشروں سے راکھین میں مقیم ان باشندوں کو وہاں سے مکمل طور پر نکال دیا جائے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
اقوام متحدہ کا مطالبہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حال ہی میں میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ راکھین میں حالات کو قابو میں لانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں کئی دہائیوں سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے اور ینگون حکومت انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
بیس ہزار مہاجرین روزانہ
رواں ہفتے عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے کہا تھا کہ روزانہ کی بنیادوں پر اوسطا بیس ہزار روہنگیا بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں۔ اس ادارے نے عالمی برداری سے ان مہاجرین کو فوری مدد پہنچانے کے لیے 26.1 ملین ڈالر کی رقوم کا بندوبست کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
تین لاکھ ستر ہزار پناہ گزین
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک تین لاکھ ستر ہزار روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔ ان افراد کو بنگلہ دیشی علاقے کوکس بازار میں بنائے گئے عارضی کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
خوراک کی قلت
عالمی ادارہ مہاجرت کے مطابق بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ انہیں بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا بھی دستیاب نہیں اور خوراک کی قلت کا بھی سامنا ہے۔