روہنگیا مسلمانوں کے پہلے گروپ کو بھارت بدر کر دیا گیا
4 اکتوبر 2018
روہنگیا اقلیت کے پہلے گروپ کو آج بھارت سے ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے۔ دہلی حکومت نے گزشتہ سال ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے روہنگیا مسلمانوں اور دیگر افراد کی ملک بدری کا فیصلہ کیا تھا۔
اشتہار
روہنگیا اقلیت کے افراد کے اس پہلے گروپ کو آج بھارتی سپریم کورٹ میں دائر اپیل کے آخری لمحوں میں رد کیے جانے کے بعد ڈی پورٹ کیا گیا۔ اس اپیل کو سات روہنگیا افراد کے وکیل کی جانب سے دائر کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان افراد کو میانمار واپسی پر انتقامی کارروائیوں کا خدشہ ہے۔ ان افراد کو سن 2012 میں غیر قانونی طور پر بھارتی حدود میں داخل ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور تب سے اب تک یہ جیل میں ہی تھے۔
ایک بھارتی پولیس افسر نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ان ساتوں روہنگیا افراد کو مانی پور ریاست میں موریح کی بارڈر کراسنگ پر میانمار حکام کے حوالے کیا گیا۔ ان افراد کے پاس اپنی ذاتی اشیاء کا ایک ایک بیگ بھی تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وہ اس ملک بدری کا حکم اس لیے دے رہی ہے کیونکہ میانمار حکومت نے ان افراد کو اپنے شہریوں کے طور پر قبول کیا ہے۔ سرکاری وکیل تشار مہتا نے انڈین سپریم کورٹ کو بتایا کہ ینگون حکومت نے اس ڈی پورٹیشن میں معاونت کرتے ہوئے سات شناختی سرٹیفیکیٹ اور تمام سات افراد کو ایک ایک ماہ کا ویزہ بھی فراہم کیا ہے۔
یاد رہے کہ بدھ اکثریت والے ملک میانمار میں روہنگیا اقلیت سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد کو حکومت شہریت دینے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس اقدام کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
وکیل دفاع پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ روہنگیا افراد کے ساتھ غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر نہیں بلکہ مہاجرین کی حیثیت سے سلوک کیا جانا چاہیے۔ بھوشن کے بقول واپسی کا عمل عالمی ادارہ مہاجرت کے ذریعے سے ہونا چاہیے۔
اگست سن 2017 سے قریب سات لاکھ روہنگیا افراد بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔ اندازوں کے مطابق چالیس ہزار روہنگیا باشندے بھارت کے مختلف علاقوں میں کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کیمپ ہریانہ، راجھستان اور جموں کشمیر میں قائم ہیں۔ چالیس ہزار میں سے صرف پندرہ ہزار ہی یو این ایچ سی آر کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔
ص ح / ع ا / نیوز ایجنسی
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
میانمار میں فوجی کارروائیوں کے باعث لاکھوں روہنگیا اپنے دیہات چھوڑ کر پناہ کے لیے بنگلہ دیش کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد اب وہاں نئے لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
’ماڈل ولیج ‘کی تعمیر
وہ علاقے جہاں بحالی کا کام کیا جا رہا ہے، وہاں اب بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے کو ماڈل ولیج کی طرز پر بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس علاقے کو خالی اس لیے کروایا گیا تاکہ یہاں نئی آبادکاریاں کی جائیں۔ اس کے تحت وہاں بہتر سڑکوں اور نئے گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
نئے لوگوں کی آمد
ملک کے دیگر علاقوں سے یہاں آنے والوں رہائش کی اجازت ہے۔ تاہم یہاں آ کر بسنے والوں کی تعداد نہ صرف انتہائی کم ہے بلکہ اکثریت کا تعلق ملک کے جنوبی علاقوں سے آئے انتہائی غریب طبقے سے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
عوام میں خوف
یہاں آکر بسنے والے لوگوں نے اس علاقے سے نئی زندگی کی کئی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں تاہم انہیں یہاں بحالی سے قبل رہنے والوں کی واپسی کا خوف بھی ہے۔ اب تک سات لاکھ روہنگیا ان علاقوں سے بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
غیر مسلم علاقہ
راکھین کی تعمیر نو کے لیے ایک ضمنی کمیٹی CRR بنائی گئی ہے۔ یہ ایک پرائیویٹ پلان ہے اور اس کمیٹی کے مقامی رہنما کے مطابق اس پلان کے تحت آباد کیے جانے والے علاقوں کو صرف غیر مسلموں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
آبادکاری کے لیے فنڈنگ
راکھین کے پارلیمانی ممبر کے مطابق یہ علاقہ اب سے قبل صرف مسلمانوں کے زیر اثر تھا۔ لیکن اب ان کے جانے کے بعد یہاں دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو جگہ دی جائے گی۔ یہاں نئے گھر بنانے اور لوگوں کو بسانے کے لیے راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی فنڈ جمع کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
64 خاندانوں کی آبادکاری
اب تک راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی CRR کی جانب سے 64 خاندانوں کے 250 افراد کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ جبکہ دو سو افراد نے یہاں بسنے کی خواہش ظاہر کی ہے جن کے نام ابھی ویٹنگ لسٹ میں درج ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور اور انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والے ہیں۔