انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سیٹلائٹ تصاویر سے پتا چلا ہے کہ میانمار کے شمال مغرب میں ملٹری کریک ڈاؤن کے دوران روہنگیا مسلمانوں کے کئی دیہات جلا دیے یا پھر مسمار کر دیے گئے ہیں۔
اشتہار
ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے پیر کے روز کہا ہے کہ بنگلہ دیشی سرحد کے قریب روہنگیا اقلیت کے تقریبا 1250 عمارتوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ قبل ازیں میانمار حکومت نے کہا تھا کہ مبینہ ’’عسکریت پسندوں‘‘ کے تین سو سے کم گھر مسمار کیے گئے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے براعظم ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے سیٹلائٹ تصاویر کو ’’خطرے کی گھنٹی‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی دیہات میں جلتے ہوئے گھروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’بظاہر پانچ دیہات میں مسلح حملے کیے گئے ہیں، جو کہ گہری تشویش کی بات ہے۔ برما کی حکومت کو تفتیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔‘‘
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد تقریبا گیارہ لاکھ بنتی ہے اور ان کی زیادہ تر تعداد راکھین کے علاقے میں آباد ہے۔ انہیں نہ تو شہریت رکھنے کا حق حاصل ہے اور نہ ہی انہیں بنیادی حقوق فراہم کیے جاتے ہیں۔ میانمار کی زیادہ تر آبادی بدھ مت ہے اور وہ روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش کے غیر قانونی تارکین وطن سمجھتے ہیں۔
حکومت پر دباؤ
تازہ ترین تشدد کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب نو اکتوبر کو تین سرحدی پوسٹوں پر مسلح افراد نے حملہ کرتے ہوئے تین اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ حکومت کی طرف سے ان حملوں کی ذمہ داری روہنگیا مسلمانوں پر عائد کی گئی تھی۔ حکومت کے کریک ڈاؤن میں کم از کم ستر روہنگیا ہلاک جبکہ چار سو کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق متاثرہ افراد کی اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ کم از کم 30 ہزار افراد بے گھر ہو گئے ہیں جبکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ فوجی جنسی زیادتی کے واقعات بھی ملوث رہے۔
میانمار میں اس وقت نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی حکومت قائم ہے۔ بہت سے مبصرین ان کی انتظامی صلاحیت پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ابھی تک برما حکومت انسانی حقوق کے مبصرین کو بھی متاثرہ علاقوں تک رسائی فراہم نہیں کر رہی جبکہ متاثرہ علاقوں میں صحافیوں کی نقل و حرکت پر بھی پابندیاں عائد ہیں۔
بے دخلی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار، روہنگیا کی ہجرت
پناہ کے متلاشی سولہ سو افراد کشتیوں کے ذریعے انڈونیشیا اور ملائشیا کی ساحلوں تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ افراد میانمار کے روہنگیا مسلمانوں اور بنگلہ دیش کے مہاجرین پر مشتمل ہیں۔ ہجرت کی یہ کہانی تصاویر کی زبانی۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
ایک روایتی انداز
اتوار دس مئی کو چار کشیتوں کے ایک قافلے میں چھ سو افراد انڈونیشیا کے صوبے آچے پہنچے۔ اسی روز تقریباً ایک ہزار افراد تین مختلف کشیتوں میں شمالی ملائشیا کے سیاحتی علاقے لنگاوی کے ساحلوں پر اترے۔ ان میں کم از کم دو کشتیوں کو مقامی مچھیروں نے ڈوبنے سے بچایا، جس کے بعد کے تمام معاملات پولیس نے اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔
تصویر: Reuters/R. Bintang
بد حالی
ان میں سے کچھ کشتیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ انسانی اسمگلرز ممکنہ طور پر ان افراد کو بھوک اور پیاس کی حالت میں بے یار و مددگار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کشتیوں کا قافلہ تقریباً ایک ہفتے قبل روانہ ہوا تھا۔ ان میں سے بہت سے افراد کو فوری طبی امداد کی بھی ضرورت تھی۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
ایک پُر خطر سفر
ہر سال انتہائی غریب بنگلہ دیشی اور بدھ مت کے پیروکاروں کے اکثریتی ملک میانمار سے ہزاروں روہنگیا مسلمان ملائشیا اور انڈونیشیا پہنچتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں پچیس ہزار کے قریب افراد انسانی اسمگلرز کی کشیتوں میں بیٹھ کر یہ سفر کر چکے ہیں۔
تصویر: Asiapics
بے وطن
ینگون حکومت میانمار میں آباد اندازاً آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو غیر قانونی بنگلہ دیشی قرار دیتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کے پاس کوئی شناخت نہیں ہے اور نسلی فسادات نے ان میں سے بہت سوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا۔ ایک اندازے کے مطابق 2012ء کے بعد سے تھائی لینڈ پہنچنے والے روہنگیا کی تعداد ڈھائی لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
جدید اندازِ غلامی
ایک فلاحی تنظیم فورٹیفائی رائٹس کے میتیھو اسمتھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ روہنگیا ملائشیا پہنچانے کے لیے انسانی اسمگلرز کو دو سو امریکی ڈالر تک دیتے ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ سفر کے دوران انہیں کھانے پینے کا مناسب سامان مہیا نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی بیٹھنے یا لیٹنے کے لیے مناسب جگہ دستیاب ہوتی ہے۔ دوران سفر انہیں مارا پیٹا بھی جاتا ہے بعض واقعات میں تو قتل بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
تھائی لینڈ کا خوف
بعض روہنگیا افراد کو اسمگلرز کی گاڑیوں میں تھائی لینڈ میں داخل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ اسمگلرز ان افراد کو جنگلوں میں یرغمال بنا لیتے ہیں اور تاوان ادا کرنے کے بعد انہیں آزادی نصیب ہوتی ہے۔ بنکاک حکومت کے ایک حالیہ آپریشن میں پولیس نے جنگلوں میں اجتماعی قبریں دریافت کی ہیں، جس کے بعد بہت سے اسمگلرز نے نئے طریقے اپنانے شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Sagolj
کارروائی کے نتائج
بنکاک حکومت کے آپریشن کے نتیجے میں جنوبی تھائی لینڈ کے جنگلات میں روہنگیا اور بنگلہ دیشی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ملی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آپریشن شروع ہو نے کے بعد اسمگلرز ان افراد کو چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ ملنے والے پناہ گزینوں سے تھائی حکام پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Str
مہاجرت کی لہر
جنوب مشرقی ایشیا کو تنازعات، ظلم و ستم اور غربت کی وجہ سے نقل مکانی کی لہر کا سامنا ہے۔ ابھی حال میں بتایا گیا کہ ایشیا پیسیفک ممالک کے تقریباً بارہ ملین افراد نے ہجرت کی، جو کسی بھی خطے میں سب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی ہے۔