امریکی محکمہ خارجہ کے لیے کام کرنے والے انسانی حقوق کے ایک گروپ نے پیر تین دسمبر کو کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف شدید نوعیت کے جرائم کے تناظر میں میانمار کی فوج کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
اشتہار
پیر کے روز جاری کردہ ایک رپورٹ میں قانونی شعبے سے متعلق انسانی حقوق کے گروپ انٹرنیشل پبلک لاء اینڈ پالیسی گروپ نے کہا کہ میانمار کی فوج مبینہ طور پر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی جیسے واقعات میں ملوث رہی ہے اور اس سلسلے میں ایک فوج داری ٹریبونل قائم کیا جانا چاہیے تاکہ ان جرائم میں ملوث افراد کو سزا دی جا سکے۔
یہ رپورٹ بنگلہ دیش میں مقیم ایک ہزار سے زائد روہنگیا باشندوں کے انٹرویوز کے تناظر میں مرتب کی گئی ہے۔ اس گروپ کے مطابق ایسے کافی شواہد موجود ہیں، جو واضح کرتے ہیں کہ میانمار کی فوج ملک کی ایک اقلیت کے خلاف شدید نوعیت کے جرائم میں ملوث ہو سکتی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’بین الاقوامی برادری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکومتوں کی جانب سے اپنی آبادی کے خلاف روا رکھے جانے والے مظالم کو روکنے اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائے جانے کو یقینی بنائے۔‘‘
روہنگیا مہاجرین واپسی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے
بنگلہ دیش میں سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین پرتشدد حالات سے فرار ہو کر گزشتہ برس پہنچے تھے۔ کیمپوں میں مقیم روہنگیا مہاجرین کے ایک گروپ نے جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف انکار کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
میانمار واپسی کے خلاف مہاجرین کا احتجاج
جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف ڈیڑھ سو روہنگیا مہاجرین نے میانمار کی سرحد پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کے دوران مظاہرین’ واپس نہیں جائیں گے‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی واپسی کے عمل پر مطمئن نہیں
بنگلہ دیش اور میانمار نے بائیس سو مہاجرین کی واپسی پر اتفاق کیا تھا۔ اس واپسی کے عمل پر اقوام متحدہ کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظمیوں نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوسے تنقید کی تھی۔ ان اداروں کے مطابق روہنگیا مہاجرین کی واپسی سے دوبارہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
روہنگیا اقلیت کا میانمار کی فوج کے ہاتھوں استحصال
سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین میانمار کی راکھین ریاست سے اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش اگس سن 2017 میں داخل ہوئے تھے۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج اور بدھ شہریوں نے اُن کے خاندانوں کا قتلِ عام کیا اور اُن کی خواتین کی اجتماعی عصمت دری بھی کی۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی ان واقعات میں نسل کشی کا الزام میانمار کی فوجی قیادت پر عائد کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’میں واپس نہیں جاؤں گا‘
پینتیس سالہ روہنگیا مہاجر نورلامین اپنی بیوی اور خاندان کے ہمراہ جمٹولی ریفیوجی کیمپ میں مقیم ہے۔ یہ کاکس بازار کے نواح میں ہے۔ نورلامین اور اس کے خاندان نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے خوف کی وجہ سے میانمار واپس نہیں جانا چاہتے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
دس لاکھ سے زائد روہنگیا ریفیوجی کیمپوں میں
بنگلہ دیشی بندرگاہی شہر کاکس بازار کے ریفیوجی کیمپ میں دس لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس باعث قدرے کمزور معاشی حالات والے ملک بنگلہ دیش کو اسں انسانی المیے سے نبردآزما ہونے میں شدید پیچیگیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/M. R.l Hasan
5 تصاویر1 | 5
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے پر فوری طور پر یا توکوئی علیحدہ سے ٹریبونل قائم کیا جانا چاہیے یا پھر یہ معاملہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے سپرد ہونا چاہیے۔
رواں برس اگست میں اقوام متحدہ کے ماہرین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ میانمار کی فوج روہنگیا کے خلاف قتل عام اور اجتماعی زیادتیوں جیسے جرائم میں ’نسل کشی کی نیت‘ کے ساتھ ملوث ہو سکتی ہے اور میانمار کی فوج کے سربراہ سمیت پانچ جرنیلوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت انصاف کا سامنا کرنا چاہیے۔