بنگلہ دیش میں مون سون کی بارشیں شروع ہونے والی ہیں۔ اس صورتحال میں کوکس بازار کے کیمپوں میں مقیم روہنگیا مہاجرین کسی ممکنہ سیلاب سے بچنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس کام میں امدادی تنظیمیں ان کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں۔
اشتہار
مئی کے آغاز میں سمندری طوفان ’فانی‘ ایک سو پچھتر کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں اور موسلا دھار بارش کے ساتھ بنگلہ دیش سے ٹکرایا تھا۔ اس کے فوری بعد ہی امدادی تنظیمیں فعال ہو گئیں اور اپنی اپنی ٹیموں کو متاثرہ علاقوں میں روانہ کر دیا تھا۔ اس موقع پر جنوبی ساحلی علاقوں میں قائم کیمپوں میں مقیم نو لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین میں امدادی اشیاء تقسیم کی گئیں۔
کوکس بازار کے ضلعے میں پہاڑیوں کے بیچ ریشم جیسی پھسلتی زمین پر رہنے والے یہ مہاجرین، لینڈسلائیڈنگ اور سیلاب کے خطرے سے زیادہ دوچار ہوسکتے ہیں۔ یعنی سمندری طوفان کی وجہ سے نشیبی علاقوں سے لوگ اس جگہ پہنچے رہے ہیں۔ سمندری طوفان عین وقت پر رخ موڑ گیا اور کوکس بازار کا علاقہ بچ گیا، مگر اس سے بنگلہ دیش اور بھارت کے کئی علاقوں میں شدید نقصان پہنچا۔
تاہم مون سون کی وجہ سے اگر شدید بارشیں ہوتی ہیں، تو بالائی علاقے میں آن پہنچنے والے یہ روہنگیا مہاجرین شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں شدید نوعیت کے حالات کے مقابلے والے رہائشی املاک کا ایک پروجیکٹ ان مہاجرین کے لیے شروع کیا گیا تھا، تاہم کہا جا رہا ہے کہ رواں مون سون کا موسم ان مکانات کے لیے بھی ایک بڑا امتحان ہو گا۔
روہنگیا کے لیے کوٹوپالونگ کے علاقے میں قائم کیے گئے متعدد مکانات بھی شدید بارشوں اور ممکنہ لینڈ سلائیڈنگ کے شدید خطرات سے دوچار ہیں۔
متعدد غیرسرکاری تنظمیں اور روہنگیا مہاجرین مل کر سڑکوں کی تعمیر، نکاسی آب کے نظام اور دیواروں کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ اس پروگرام کا مقصد مہاجر بستیوں کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ہے۔ اس پروگرام کا ایک بڑا حصہ سن 2017 میں اس وقت نہایت جلدبازی میں تعمیر کیا گیا تھا، جب میانمار کی راکھین ریاست میں عسکری آپریشن کے تناظر میں کچھ ہی عرصے میں سات لاکھ سے زائد روہنگیا افراد کو بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرنا پڑی تھی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ مہاجرین کے زیراستعمال علاقوں میں ڈھلوانی سطح بالکل مستحکم نہیں ہے اور بارشوں کی صورت میں کسی بھی وقت لینڈسلائیڈنگ ہو سکتی ہے۔۔
روہنگیا مہاجرین واپسی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے
بنگلہ دیش میں سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین پرتشدد حالات سے فرار ہو کر گزشتہ برس پہنچے تھے۔ کیمپوں میں مقیم روہنگیا مہاجرین کے ایک گروپ نے جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف انکار کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
میانمار واپسی کے خلاف مہاجرین کا احتجاج
جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف ڈیڑھ سو روہنگیا مہاجرین نے میانمار کی سرحد پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کے دوران مظاہرین’ واپس نہیں جائیں گے‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی واپسی کے عمل پر مطمئن نہیں
بنگلہ دیش اور میانمار نے بائیس سو مہاجرین کی واپسی پر اتفاق کیا تھا۔ اس واپسی کے عمل پر اقوام متحدہ کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظمیوں نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوسے تنقید کی تھی۔ ان اداروں کے مطابق روہنگیا مہاجرین کی واپسی سے دوبارہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
روہنگیا اقلیت کا میانمار کی فوج کے ہاتھوں استحصال
سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین میانمار کی راکھین ریاست سے اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش اگس سن 2017 میں داخل ہوئے تھے۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج اور بدھ شہریوں نے اُن کے خاندانوں کا قتلِ عام کیا اور اُن کی خواتین کی اجتماعی عصمت دری بھی کی۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی ان واقعات میں نسل کشی کا الزام میانمار کی فوجی قیادت پر عائد کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’میں واپس نہیں جاؤں گا‘
پینتیس سالہ روہنگیا مہاجر نورلامین اپنی بیوی اور خاندان کے ہمراہ جمٹولی ریفیوجی کیمپ میں مقیم ہے۔ یہ کاکس بازار کے نواح میں ہے۔ نورلامین اور اس کے خاندان نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے خوف کی وجہ سے میانمار واپس نہیں جانا چاہتے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
دس لاکھ سے زائد روہنگیا ریفیوجی کیمپوں میں
بنگلہ دیشی بندرگاہی شہر کاکس بازار کے ریفیوجی کیمپ میں دس لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس باعث قدرے کمزور معاشی حالات والے ملک بنگلہ دیش کو اسں انسانی المیے سے نبردآزما ہونے میں شدید پیچیگیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔