'روہنگیا مہاجرین کی جزیرے پر منتقلی حقیقت پسندانہ نہیں‘
1 جون 2018
اقوام متحدہ کے ایک سینئیر اہلکار کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ روہنگیا مہاجرین کو خلیج بنگال کے ایک جزیرے میں منتقل کرنے کا بنگلہ دیش کی حکومت کا منصوبہ حقیقت پسندانہ معلوم نہیں ہوتا۔
تصویر: Reuters/M. Nichols
اشتہار
یو این ریفیوجی ایجنسی کے اسسٹنٹ ہائی کمشنر جارج اوکس اوبو نے ڈھاکہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ میں نہیں سمجھتا کہ جزیرے میں ان مہاجرین کی منتقلی کوئی حقیقت پسندانہ حل ہو گا۔
اوکس اوبو کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور دیگر امدادی ادارے جزیرے پر روہنگیا مہاجرین کی منتقلی سے پہلے یہ جاننا چاہیں گے کہ وہاں اُن کے لیے کیا سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں۔ یو این ریفیوجی ایجنسی کے اسسٹنٹ ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ یو این او اس حوالے سے ہر پہلو کا مکمل جائزہ لے گی۔
ڈھاکہ حکومت نے خلیج بنگال کے جزیرے بھاشن چار میں ایک لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان مہاجرین کو جولائی کے آخر تک منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امدادی تنظیموں نے بنگلہ دیش کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جزیرے کا بیشتر علاقہ اونچی لہروں کے باعث زیر آب آتا رہتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
امدادی اداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ باقی ماندہ بنگلہ دیش سے اس جزیرے تک ایک تیز رفتار انجن والی موٹر بوٹ کے ذریعے پہنچنے میں دو گھنٹے کا وقت لگتا ہے اور مون سون کے زمانے میں یہاں سمندری طوفان اور سیلاب آنے کا مسلسل خطرہ ہے جس باعث یہاں رہنا انتہائی خطرناک ہے۔
جارج اوکس اوبو نے بنگلہ دیش کے علاقے کوکس بازار میں قائم روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کرنے کے بعد کہا کہ ان کیمپوں میں موجود دو لاکھ افراد کی منتقلی کے لیے کسی مناسب جگہ کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔
رواں ہفتے ہی امدادی اداروں اور اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں جلد متوقع مون سون کی بارشوں اور سمندری طوفانوں کے سبب کوکس بازار میں قائم روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں کو شدید خطرات درپیش ہو سکتے ہیں۔
اگست 2017ء سے اب تک سات لاکھ کے قریب روہنگیا میانمار کی ریاست راکھین سے اپنی جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔
ص ح/ ڈی پی اے
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
میانمار میں فوجی کارروائیوں کے باعث لاکھوں روہنگیا اپنے دیہات چھوڑ کر پناہ کے لیے بنگلہ دیش کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد اب وہاں نئے لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
’ماڈل ولیج ‘کی تعمیر
وہ علاقے جہاں بحالی کا کام کیا جا رہا ہے، وہاں اب بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے کو ماڈل ولیج کی طرز پر بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس علاقے کو خالی اس لیے کروایا گیا تاکہ یہاں نئی آبادکاریاں کی جائیں۔ اس کے تحت وہاں بہتر سڑکوں اور نئے گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
نئے لوگوں کی آمد
ملک کے دیگر علاقوں سے یہاں آنے والوں رہائش کی اجازت ہے۔ تاہم یہاں آ کر بسنے والوں کی تعداد نہ صرف انتہائی کم ہے بلکہ اکثریت کا تعلق ملک کے جنوبی علاقوں سے آئے انتہائی غریب طبقے سے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
عوام میں خوف
یہاں آکر بسنے والے لوگوں نے اس علاقے سے نئی زندگی کی کئی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں تاہم انہیں یہاں بحالی سے قبل رہنے والوں کی واپسی کا خوف بھی ہے۔ اب تک سات لاکھ روہنگیا ان علاقوں سے بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
غیر مسلم علاقہ
راکھین کی تعمیر نو کے لیے ایک ضمنی کمیٹی CRR بنائی گئی ہے۔ یہ ایک پرائیویٹ پلان ہے اور اس کمیٹی کے مقامی رہنما کے مطابق اس پلان کے تحت آباد کیے جانے والے علاقوں کو صرف غیر مسلموں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
آبادکاری کے لیے فنڈنگ
راکھین کے پارلیمانی ممبر کے مطابق یہ علاقہ اب سے قبل صرف مسلمانوں کے زیر اثر تھا۔ لیکن اب ان کے جانے کے بعد یہاں دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو جگہ دی جائے گی۔ یہاں نئے گھر بنانے اور لوگوں کو بسانے کے لیے راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی فنڈ جمع کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
64 خاندانوں کی آبادکاری
اب تک راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی CRR کی جانب سے 64 خاندانوں کے 250 افراد کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ جبکہ دو سو افراد نے یہاں بسنے کی خواہش ظاہر کی ہے جن کے نام ابھی ویٹنگ لسٹ میں درج ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور اور انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والے ہیں۔