روہنگیا مہاجرین کے کیمپ: عسکریت پسند پاؤں جمانے کی کوشش میں
24 ستمبر 2019
قتل، اغواء اور تعاقب کرنا، بنگلہ دیش میں مقیم لاکھوں روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں میں ڈھاکا حکومت کے دعووں کے برعکس روہنگیا عسکریت پسند کافی حد تک اپنے پاؤں جمانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اشتہار
2017ء میں میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے کئی پولیس چوکیوں پر حملہ کردیا تھا۔ اس کے بعد جب ملکی فوج نے ان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا، تو لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان میانمار کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں مہاجرین کے طور پر پناہ گزین ہو گئے تھے۔ آج ان کیمپوں میں مقیم عسکریت پسند ان روہنگیا مہاجرین کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جو ان کے طریقہ کار سے اختلاف کرتے ہیں۔
اب تک بنگلہ دیش میں ان روہنگیا مہاجرین کا سب سے بڑا کیمپ کوکس بازار میں ہے، جس کی گلیاں شام ہوتے ہی خالی ہو جاتی ہیں اور وہاں دو دو اور تین تین کے گروپوں میں ایسے نوجوان گشت کرتے نظر آتے ہیں، جو دراصل ایسے رضاکار روہنگیا چوکیدار ہوتے ہیں، جن کا کام وہاں موجود جرائم پیشہ گروپوں کی ممکنہ سرگرمیوں سے خبردار کرنا ہوتا ہے۔ اس کیمپ میں، جو دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ ہے، شام ہوتے ہی حکومت کی طرف سے لگایا گیا وہ کرفیو مؤثر ہو جاتا ہے، جس کے نفاذ کی وجہ اس کیمپ میں پائی جانے والی سلامتی کی کشیدہ صورت حال بنی تھی۔
اس کیمپ کے ایک حالیہ دورے کے دوران دو مقامی ذرائع کی مدد سے جب ڈی ڈبلیو کے صحافیوں کی ایک ٹیم نے ایک روہنگیا خاتون مہاجر کی رہائش گاہ کا دورہ کیا، تو اس خاتون نے بتایا کہ اس کے شوہر کو اس کے خیمے سے کچھ ہی فاصلے پر قتل کر دیا گیا تھا۔ اس خاتون نے بتایا کہ اس کا شوہر روہنگیا مہاجرین کی فلاح کے لیے کام کرتا تھا اور مہاجرین کے مختلف کیمپوں میں نظر آنے والی بدسلوکی اور جرائم کو روکنے کا خواہش مند تھا۔
ڈی ڈبلیو کی طرف سے اس خاتون اور اس کے مقتول شوہر کی شناخت اس لیے ظاہر نہیں کی جا رہی تاکہ اس خاتون کو سلامتی کو، جو دو چھوٹے بچوں کی ماں ہے اور اب بیوہ ہو چکی ہے، مزید کوئی خطرہ نہ ہو۔ اس خاتون کا کہنا ہے کہ اس کے شوہر کا قتل روہنگیا عسکریت پسندوں کے ایک ایسے طاقت ور گروپ کے ارکان نے کیا، جو ایسے مہاجر کیمپوں میں دندناتے پھرتے ہیں اور 'جنہیں روکنے والا تقریباﹰ کوئی نہیں‘۔
آراکان روہنگیا سالویشن آرمی
کوکس بازار کے اس روہنگیا مہاجر کیمپ کی رہائشی اس خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کے شوہر کا قتل ان لوگوں نے کیا، جن کا تعلق 'حرکہ الیقین‘ سے تھا۔ 'حرکہ الیقین‘ روہنگیا مسلمانوں کے اس عسکریت پسند گروپ کا سابقہ نام ہے، جس نے 2016ء میں اپنی شناخت بدل کر اپنا نام آراکان روہنگیا سالویشن آرمی یا 'ارسا‘ (ARSA) رکھا لیا تھا۔ یہ عسکریت پسند گروپ، جس کے چند سرکردہ روہنگیا ارکان مبینہ طور پر سعودی عرب اور پاکستان سے میانمار پہنچے تھے، بدھ مت کی اکثریت والے ملک میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا آبادی کے لیے خود مختاری کا نعرہ لگاتا ہے۔
'ارسا‘ کا نام پہلی بار اس وقت بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں سرخیوں کی وجہ بنا تھا، جب اگست 2017ء میں اس گروہ کے ارکان نے میانمار کی ریاست راکھین میں ملکی فوج اور سرحدی حفاظتی پولیس کی تقریباﹰ 30 چوکیوں پر وہ منظم حملے کیے تھے، جن میں سرکاری ذرائع کے مطابق میانمار کی سکیورٹی فورسز کے 12 ارکان مارے گئے تھے۔ اس سے قبل اس ریاست میں 2016ء کے اواخر میں بھی انہی روہنگیا عسکریت پسندوں نے سکیورٹی دستوں کی چوکیوں پر حملے کیے تھے۔ پھر جب حالات مزید بگڑ گئے، تو یہ تنازعہ اور بھی شدت اختیار کر گیا اور ملکی فوج نے راکھین میں ایک بھرپور کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا۔
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Aung Shine Oo
14 تصاویر1 | 14
فوجی کریک ڈاؤن کے دوران مظالم
اس کریک ڈاؤن کے دوران میانمار کی فوج نے روہنگیا مسلم اقلیت کے کئی دیہات پر بمباری کی اور بہت سے گاؤں جلا کر راکھ کر دیے گئے تھے۔ ان حالات میں سات لاکھ تیس ہزار سے زائد روہنگیا باشندے دریائے نَف کی صورت میں میانمار اور بنگلہ دیش کے درمیان قدرتی سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔
دو سال قبل جب روہنگیا مہاجرین سے متعلق تنازعہ اپنے عروج پر تھا، بنگلہ دیشی حکومت نے ان لاکھوں مہاجرین کو اہنے ہاں نہ صرف قبول کیا تھا بلکہ ان کے لیے سرحد کے قریب ہی عبوری طور پر خیمے لگا کر ایسے مہاجر کیمپ بھی قائم کر دیے گئے تھے، جو مل کر اب دنیا کے سب سے بڑے مہاجر کمیپ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اس کیمپ کے رہائشی یہ تصدیق کرتے ہیں کہ اس کیمپ میں 'ارسا‘ کے ایسے عسکریت پسند ارکان بھی موجود ہیں، جن کی وجہ سے راکھین میں اس نسلی اقلیت سے متعلق تنازعہ شدت اختیار کر گیا تھا۔
'بنگلہ دیش میں ارسا نہیں ہے‘
ڈھاکا میں بنگلہ دیشی حکومت ان دعووں کی تردید کرتی ہے کہ روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں میں 'ارسا‘ کے عسکریت پسند بھی موجود ہیں۔ اس بارے میں بنگلہ دیشی وزیر خارجہ ابوالکلام عبدالمومن کہتے ہیں، ''بنگلہ دیش میں 'ارسا‘ کا کوئی وجود نہیں، میانمار میں ہے۔ لیکن اگر ایسے کوئی عناصر بنگلہ دیش میں پائے گئے، تو اہم انہیں گرفتار کر کے میانمار حکومت کے حوالے کر دیں گے۔‘‘
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
8 تصاویر1 | 8
اس کے برعکس اس مہاجر کیمپ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اس کیمپ میں 'ارسا‘ موجود ہے اور عام مہاجرین کی اکثریت ان عسکریت ہسندوں کی موجودگی سے خوف زدہ بھی ہے۔ ڈی ڈبلیو اپنے طور پر اگرچہ ان دعووں کی تصدیق نہ کر سکا تاہم کئی روہنگیا مہاجرین نے بتایا کہ 'ارسا‘ ایک ایسا لفظ ہے، جس کے کان میں پڑتے ہی کوئی بھی گفتگو بالعموم وہیں پر ختم ہو جاتی ہے کیونکہ 'اس گروپ نے ہر روہنگیا مہاجر کیمپ میں اپنے مخبروں کا جال بچھا رکھا ہے‘۔
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
میانمار میں فوجی کارروائیوں کے باعث لاکھوں روہنگیا اپنے دیہات چھوڑ کر پناہ کے لیے بنگلہ دیش کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد اب وہاں نئے لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
’ماڈل ولیج ‘کی تعمیر
وہ علاقے جہاں بحالی کا کام کیا جا رہا ہے، وہاں اب بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے کو ماڈل ولیج کی طرز پر بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس علاقے کو خالی اس لیے کروایا گیا تاکہ یہاں نئی آبادکاریاں کی جائیں۔ اس کے تحت وہاں بہتر سڑکوں اور نئے گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
نئے لوگوں کی آمد
ملک کے دیگر علاقوں سے یہاں آنے والوں رہائش کی اجازت ہے۔ تاہم یہاں آ کر بسنے والوں کی تعداد نہ صرف انتہائی کم ہے بلکہ اکثریت کا تعلق ملک کے جنوبی علاقوں سے آئے انتہائی غریب طبقے سے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
عوام میں خوف
یہاں آکر بسنے والے لوگوں نے اس علاقے سے نئی زندگی کی کئی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں تاہم انہیں یہاں بحالی سے قبل رہنے والوں کی واپسی کا خوف بھی ہے۔ اب تک سات لاکھ روہنگیا ان علاقوں سے بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
غیر مسلم علاقہ
راکھین کی تعمیر نو کے لیے ایک ضمنی کمیٹی CRR بنائی گئی ہے۔ یہ ایک پرائیویٹ پلان ہے اور اس کمیٹی کے مقامی رہنما کے مطابق اس پلان کے تحت آباد کیے جانے والے علاقوں کو صرف غیر مسلموں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
آبادکاری کے لیے فنڈنگ
راکھین کے پارلیمانی ممبر کے مطابق یہ علاقہ اب سے قبل صرف مسلمانوں کے زیر اثر تھا۔ لیکن اب ان کے جانے کے بعد یہاں دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو جگہ دی جائے گی۔ یہاں نئے گھر بنانے اور لوگوں کو بسانے کے لیے راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی فنڈ جمع کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
64 خاندانوں کی آبادکاری
اب تک راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی CRR کی جانب سے 64 خاندانوں کے 250 افراد کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ جبکہ دو سو افراد نے یہاں بسنے کی خواہش ظاہر کی ہے جن کے نام ابھی ویٹنگ لسٹ میں درج ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور اور انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
6 تصاویر1 | 6
تربیت پاکستانی طالبان کے ہاتھوں؟
'ارسا‘ کے بارے میں انٹرنیشنل کرائسس گروپ (آئی سی جی) نامی بین الاقوامی غیر حکومتی تنظم نے کہا تھا کہ اس گروپ کی بنیاد 2014ء میں رکھی گئی تھی۔ اس گروپ کا رہنما مبینہ طور پر عطااللہ نامی ایک ایسا روہنگیا مسلمان ہے، جو پاکستان میں ایک روہنگیا مہاجر خاندان میں پیدا ہوا تھا اور جس کا گھرانہ بعد میں اس وقت سعودی عرب چلا گیا تھا جب وہ ابھی نوجوان ہی تھا۔ آئی سی جی کے مطابق عطااللہ اور اس کے گروپ کے کئی سرکردہ ارکان نے عسکری تربیت پاکستانی طالبان سے حاصل کی تھی اور انہیں میانمار میں گوریلا کارروائیوں کے لیے یہ ٹریننگ پاکستان اور افغانستان میں دی گئی تھی۔
اس بارے میں پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں اعتراف کیا کہ ان طالبان نے روہنگیا مسلمانوں کے ایک گروپ کو عسکری تربیت دی تھی۔ اس ترجمان نے بتایا کہ جب ٹی ٹی پی نامی اس تحریک کو میانمار کے مسلمانوں کی طرف سے یہ درخواست کی گئی تھی، تو پاکستانی طالبان اس سے انکار نہ کر سکے تھے۔
بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کے اس کیمپ میں 'ارسا‘ کے عسکریت پسندوں کی موجودگی سے باخبر اسی کیمپ کے ایک رہائشی نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بنگلہ دیش میں مہاجر کمیپوں میں روہنگیا عسکریت پسندوں کی تعداد ساڑھے تین ہزار کے قریب ہے اور ان میں سے سینکڑوں خفیہ طور پر سرحد پار کر کے میانمار میں عسکری تربیت کے لیے بھی گئے ہوئے ہیں۔
ناؤمی کونراڈ، عرفات الاسلام
روہنگیا مہاجرین واپسی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے
بنگلہ دیش میں سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین پرتشدد حالات سے فرار ہو کر گزشتہ برس پہنچے تھے۔ کیمپوں میں مقیم روہنگیا مہاجرین کے ایک گروپ نے جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف انکار کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
میانمار واپسی کے خلاف مہاجرین کا احتجاج
جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف ڈیڑھ سو روہنگیا مہاجرین نے میانمار کی سرحد پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کے دوران مظاہرین’ واپس نہیں جائیں گے‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی واپسی کے عمل پر مطمئن نہیں
بنگلہ دیش اور میانمار نے بائیس سو مہاجرین کی واپسی پر اتفاق کیا تھا۔ اس واپسی کے عمل پر اقوام متحدہ کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظمیوں نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوسے تنقید کی تھی۔ ان اداروں کے مطابق روہنگیا مہاجرین کی واپسی سے دوبارہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
روہنگیا اقلیت کا میانمار کی فوج کے ہاتھوں استحصال
سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین میانمار کی راکھین ریاست سے اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش اگس سن 2017 میں داخل ہوئے تھے۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج اور بدھ شہریوں نے اُن کے خاندانوں کا قتلِ عام کیا اور اُن کی خواتین کی اجتماعی عصمت دری بھی کی۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی ان واقعات میں نسل کشی کا الزام میانمار کی فوجی قیادت پر عائد کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’میں واپس نہیں جاؤں گا‘
پینتیس سالہ روہنگیا مہاجر نورلامین اپنی بیوی اور خاندان کے ہمراہ جمٹولی ریفیوجی کیمپ میں مقیم ہے۔ یہ کاکس بازار کے نواح میں ہے۔ نورلامین اور اس کے خاندان نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے خوف کی وجہ سے میانمار واپس نہیں جانا چاہتے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
دس لاکھ سے زائد روہنگیا ریفیوجی کیمپوں میں
بنگلہ دیشی بندرگاہی شہر کاکس بازار کے ریفیوجی کیمپ میں دس لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس باعث قدرے کمزور معاشی حالات والے ملک بنگلہ دیش کو اسں انسانی المیے سے نبردآزما ہونے میں شدید پیچیگیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔