چالیس برس قبل روہنگیا کو دوبارہ بسائے جانے والی ایک اسکیم کے تحت فضل احمد بنگلہ دیش سے واپس اپنے ملک میانمار گیا تھا، تاہم اب اسے ایک مرتبہ پھر اپنا گھر بار چھوڑ کر دوبارہ بنگلہ دیش ہجرت کرنا پڑی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فضل احمد اب بنگلہ دیش میں ایک خیمہ بستی میں اپنی بیوی کے ہمراہ مقیم ہے۔ رواں برس اگست کے آخر میں میانمار میں سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے آغاز کے بعد سے لاکھوں روہنگیا مسلمان اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور فضل احمد بھی اس دوران ہجرت کرنے والے افراد میں شامل ہے۔ اقوام متحدہ میانمار کی فوج کی جانب سے جاری اس آپریشن کو ’’نسل کشی‘‘ کے مترادف قرار دے چکی ہے۔
دیگر مہاجرین کے برعکس فضل احمد ان مہاجر بستیوں کو پہلے ہی سے جانتا ہے۔ سن 1978ء میں میانمار کی راکھین ریاست میں مسلم اقلیت کے خلاف حملوں کے تناظر میں اس کا خاندان ہجرت کر کے بھارت آیا تھا اور اس وقت فضل احمد ایک بچہ تھا۔
اپنی پرانی یادیں بانٹتے ہوئے فضل احمد کا کہنا ہے، ’’جب ہم سے مزید نہ رہا گیا اور روہنگیا کسانوں کے خلاف بدھ بھکشوؤں کے حملے تیز تر ہو گئے، تو ہمیں اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا تھا۔‘‘ فضل نے مزید بتایا، ’’وہ لوگ نوجوانوں کو اغوا کر رہے تھے اور تاوان کی رقم مانگتے تھے۔‘‘ فضل کے مطابق اب کی اس کی عمر اکتالیس برس ہے، تاہم اس کی سفید داڑھی اور اس کی یاداشتیں بتاتی ہیں کہ اس کی عمر اس سے کہیں زیادہ ہے۔
روہنگیا مہاجرین دنیا کے کون کون سے ممالک میں ہیں
میانمار کی روہنگیا اقلیت پر ینگون سکیورٹی فورسز کے مبینہ مظالم کے خلاف اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ اقلیت اس وقت دنیا کے کن ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہے، اس حوالے سے یہ تصاویر دیکھیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Jones
میانمار
اعداد وشمار کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش کی طرف حالیہ ہجرت سے قبل میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ تھی۔ میانمار میں انہیں غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Jones
بنگلہ دیش
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد روہنگیا اپنی جان بچانے کے لیے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہےکہ مہاجرین کی تعداد اور ضروریات کے تناظر میں بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھاری امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: Getty Images/P. Bronstein
پاکستان
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے انتہائی پسماندہ علاقوں اور بستیوں میں قریب تین لاکھ روہنگیا باشندے مقیم رہائش پذیر ہیں۔ یہ وہ باشندے ہیں، جن میں سے بہت سے قریب نصف صدی قبل سابق برما اور موجودہ میانمار میں ہونے والی خونریزی سے بچتے بچاتے پاکستان پہنچے تھے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
سعودی عرب
ساٹھ کی دہائی میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے دورِ ِ اقتدار میں ہزاروں روہنگیا مسلمان برما (جو اب میانمار ہو چکا ہے) کے مغربی صوبے اراکان سے ہجرت کر کے سعودی شہر مکہ پہنچے تھے۔ حال ہی میں ریاض حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر پندرہ ملین ڈالر کی امداد روہنگیا مسلمانوں کو دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
تصویر: DW/L. Kafanov
ملائیشیا
ملائیشیا کی حکومت کے مطابق راکھین ریاست میں شورش کی وجہ سے ہزاروں روہنگیا افراد ہمسایہ ممالک میں فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ سے زائد اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P. Hossain
بھارت
میانمار کی روہنگیا اقلیت کئی برسوں سے ہجرت کر کے بھارت کا رخ کرتی رہی ہے۔ بھارت میں اقوام متحدہ کی جانب سے قائم کردہ مہاجر کیمپوں میں سولہ ہزار سے زائد روہنگیا رہ رہے ہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق بھارت میں کم و بیش چالیس ہزار روہنگیا مہاجرین مقیم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/C. Anand
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی روہنگیا مسلمان اچھی خاصی تعداد میں مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں۔ یہ روہنگیا افراد بھی میانمار سے ہجرت کر کے تھائی لینڈ پہنچے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Alam
7 تصاویر1 | 7
بنگلہ دیش میں اس وقت قریب ایک ملین روہنگیا مہاجرین موجود ہیں، جن میں بڑی اکثریت ان کی ہے، جو حالیہ دو ماہ میں یہاں پہنچی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان مہاجرین کو خوراک، پینے کے پانی، نکاسی آب اور طبی سہولیات کی اشد ضرورت ہے۔
ڈھاکا حکومت واضح کر چکی ہے کہ ان تمام مہاجرین کو ہر حال میں میانمار بھیجا جائے گا اور اس مقصد کے لیے ڈھاکا اور ینگون حکومتیں بات چیت میں بھی مصروف ہیں۔ مگر فضل احمد کے مطابق یہ بات چیت آسان نہیں ہو گی کیوں کہ میانمار میں انہیں مقامی باشندہ سمجھنے کی بجائے بنگلہ دیشی مہاجر قرار دیا جاتا ہے اور ان کے خلاف معاشرتی سطح پر نفرت کا رویہ عمومی بات ہے۔