روہنگیا کے حقوق کی خلاف ورزیاں، اقوام متحدہ کمیٹی کی مذمت
17 نومبر 2018
اقوام متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی نے روہنگیا اقلیت کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کی ہے۔ اس مناسبت سے ایک مذمتی قرارداد کو جمعہ سولہ نومبر کو بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا۔
اشتہار
جس کمیٹی نے روہنگیا اقلیت کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمتی قراردار منظوری کی ہے، وہ جنرل اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہے۔ مذمتی قرارداد کے حق میں ایک سو بیالیس ووٹ ڈالے گئے جب کہ اس کے خلاف صرف دس ووٹ پڑے۔ اقوام متحدہ کے چھبیس رکن ملکوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
جنرل اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹی میں قرارداد کی منظوری کی رائے شماری میں مخالفت میں ووٹ ڈالنے والوں میں چین بھی شامل ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ چین میانمار کا ایک اہم اتحادی اور حلیف ملک ہے۔ مخالفت میں ووٹ ڈالنے والوں میں میانمار کے ہمسایہ ممالک کمبوڈیا اور لاؤس کے ساتھ روس بھی شامل ہے۔ میانمار اور روس کے دوطرفہ تعلقات میں بھی مسلسل بہتری کے آثار ہیں۔
اس رائے شماری میں میانمار کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا کیونکہ اُسے دس لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین کے بوجھ کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ صرف سات لاکھ سے زائد مہاجرین اگست سن 2017 میں میانمار سے فوجی آپریشن کے دوران اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش میں داخل ہوئے تھے۔ ان مہاجرین کی وجہ سے بنگلہ دیشی معاشرت اور معیشت کو شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
اس قرارداد میں واضح کیا گیا کہ میانمار کی روہنگیا مسلم اقلیت کو انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے ساتھ انہیں مختلف قسم کے استحصال کا بھی سامنا ہے۔ اس اقلیت کو اگست سن 2017 میں میانمار کی فوج نے مقامی بدھ آبادی کے تعاون سے ایک بڑے آپریشن کے دوران جہاں بے شمار افراد کو قتل کیا گیا وہاں اس اقلیت کی خواتین کو اجتماعی ریپ کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
جنرل اسمبلی کی قرارداد میں میانمار کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ امتیازی سلوک کی پالیسی کو فوری طور پر ختم کرتے ہوئے روہنگیا مسلم اقلیت کو شہریت دینے کے راستے کا انتخاب کرے۔ میانمار میں حکومت اور عوام روہنگیا مسلم اقلیت کو کوئی مقامی نسلی گروپ تسلیم نہیں کرتے اور انہیں بنگالی قرار دیا جاتا ہے اور ان کا تعلق بنگلہ دیش سے جوڑا جاتا ہے۔
روہنگیا مہاجرین واپسی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے
بنگلہ دیش میں سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین پرتشدد حالات سے فرار ہو کر گزشتہ برس پہنچے تھے۔ کیمپوں میں مقیم روہنگیا مہاجرین کے ایک گروپ نے جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف انکار کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
میانمار واپسی کے خلاف مہاجرین کا احتجاج
جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف ڈیڑھ سو روہنگیا مہاجرین نے میانمار کی سرحد پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کے دوران مظاہرین’ واپس نہیں جائیں گے‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی واپسی کے عمل پر مطمئن نہیں
بنگلہ دیش اور میانمار نے بائیس سو مہاجرین کی واپسی پر اتفاق کیا تھا۔ اس واپسی کے عمل پر اقوام متحدہ کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظمیوں نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوسے تنقید کی تھی۔ ان اداروں کے مطابق روہنگیا مہاجرین کی واپسی سے دوبارہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
روہنگیا اقلیت کا میانمار کی فوج کے ہاتھوں استحصال
سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین میانمار کی راکھین ریاست سے اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش اگس سن 2017 میں داخل ہوئے تھے۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج اور بدھ شہریوں نے اُن کے خاندانوں کا قتلِ عام کیا اور اُن کی خواتین کی اجتماعی عصمت دری بھی کی۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی ان واقعات میں نسل کشی کا الزام میانمار کی فوجی قیادت پر عائد کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’میں واپس نہیں جاؤں گا‘
پینتیس سالہ روہنگیا مہاجر نورلامین اپنی بیوی اور خاندان کے ہمراہ جمٹولی ریفیوجی کیمپ میں مقیم ہے۔ یہ کاکس بازار کے نواح میں ہے۔ نورلامین اور اس کے خاندان نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے خوف کی وجہ سے میانمار واپس نہیں جانا چاہتے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
دس لاکھ سے زائد روہنگیا ریفیوجی کیمپوں میں
بنگلہ دیشی بندرگاہی شہر کاکس بازار کے ریفیوجی کیمپ میں دس لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس باعث قدرے کمزور معاشی حالات والے ملک بنگلہ دیش کو اسں انسانی المیے سے نبردآزما ہونے میں شدید پیچیگیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔