روہنگیا کے موضوع پر، ڈھاکا اور نیپیدوا حکام کے مذاکرات
11 جنوری 2017![Malaysia Kuala Lumpur - Proteste gegen die verfolgung von Muslimen in Myanmar](https://static.dw.com/image/36955522_800.webp)
بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کی ترجمان بیگم خالدہ نے بتایا کہ دونوں ممالک کے وفود کے مابین یہ ملاقات ڈھاکا میں ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس میں میانمار کے وزارت خارجہ کی خصوصی مندوب یوکوا تن اپنے بنگلہ دیشی ہم منصب عبد الحسن محمود علی سے بات چیت کر رہے ہیں۔ کوا تن گزشتہ روز ہی بنگلہ دیشی دارالحکومت پہنچ گئے تھے۔
بنگلہ دیشی حکام نے بتایا ہے کہ میانمار میں آرمی کی جانب سے کارروائیاں شروع ہونے کے بعد سے پچاس ہزار سے زائد روہنگیا سرحد پار کر کے بنگلہ دیش میں پہنچ چکے ہیں۔ میانمار کی فوج نے گزشتہ برس اکتوبر میں راکھین صوبے میں اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔
بیگم خالدہ بقول بنگلہ دیش حکومت اپنے اس موقف کو دہرائے گی کہ روہنگیا میانمار کے شہری ہیں، انہیں واپس قبول کیا جائے اور اس مسئلے کا کوئی دیرپا حل نکالا جائے۔ کواتن کے ترجمان نے کہا کہ اس دوران روہنگیا کے علاوہ اور بھی دیگر موضوعات پر بات کی جائے گی۔ اس تین روزہ دورے کے دوران میانمار کے وفد کے سربراہ یوکوا تن ممکنہ طور پر بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد سے بھی ملیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش میں دو سے پانچ لاکھ کے درمیان روہنگیا افراد بغیر کسی اندراج کے رہ رہے ہیں جبکہ رجسٹرڈ روہنگیا کی تعداد 29 ہزار ہے۔
میانمار کی غیر ترین ریاست راکھین میں آباد روہنگیا مسلمانوں کو میانمار بنگلہ دیشی شہری قرار دیتی ہے۔ اس سے قبل بھی بدھ مت کے پیروکاروں اور روہنگیا کے مابین اکثر فسادات ہوتے رہے ہیں، جن میں زیادہ مالی و جانی نقصان روہنگیا کا ہی ہوا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی میانمار کی فوج کی کارروائیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق مسلم اقلیتی روہنگیا باشندوں کے خلاف فوج آپریشن انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان کی سربراہی میں قائم ایک کمیٹی بھی ان اقعات کی چھان بین کر رہی ہے۔