رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کا اسرائیل پر تشدد کا الزام
5 جولائی 2024غزہ کے سب سے بڑے الشفا ہسپتال کے سابق ڈائریکٹر محمد ابو سلمیہ نے اسرائیل پر قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کا تازہ ترین الزام عائد کیا ہے۔ گزشتہ پیر کو رہائی پانے والے درجنوں قیدیوں میں سے ایک ابو سلمیہ نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا، ''متعدد قیدی تفتیشی مراکز میں ہی مر گئے جبکہ ان کو خوراک اور ادویات تک سے بھی محروم رکھا گیا تھا۔‘‘
اسرائیلی فوج اور شاباک انٹیلی جنس سروس نے ان الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن یہ دونوں ادارے ہی ماضی میں ایسے الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔
اقوام متحدہ اور دیگر ادارے ایک طویل عرصے سے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں تاہم اب انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے آنے والی قانونی تبدیلیوں نے صورتحال کو ابتر بنا دیا ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے 11 جون کو اسرائیل کی طرف سے رہائی کے بعد غزہ پٹی کے کمال عدوان ہسپتال میں داخل کرائےگئے 50 قیدیوں میں سے کچھ کے انٹرویوز کیے۔ انہی میں شامل 37 سالہ محمود الزانین نے بتایا کہ بعض اوقات اس کے جنسی اعضاء کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ہسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے اس فلسطینی کا کہنا تھا، ''انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ (غزہ میں حماس کے رہنما) یحییٰ سنوار کہاں ہیں، حماس کہاں ہے، ہمارے قیدی کہاں ہیں اور میں نے سات اکتوبر کے حملے میں کیوں شرکت کی؟‘‘ الزانین کے مطابق اس نے جواب دیا تھا کہ وہ سات اکتوبر کے حملے میں شامل نہیں تھا۔
حماس کی طرف سے سات اکتوبر کو کیے گئے دہشت گردانہ حملے میں تقریبا 1200 اسرائیلی مارے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا، جس میں اب تک کم از کم 38,011 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والے فلسطینیوں میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی تھی۔
الزانین نے مزید بتایا کہ اسے نیند اور باتھ روم تک رسائی سے بھی محروم رکھا گیا اور اس کے طبی علاج سے بھی انکار کر دیا گیا، ''ہم نے اپنے کپڑوں میں ہی پیشاب کیا۔‘‘
رہائی پانے والے ایک دوسرے قیدی عثمان الکفارنہ نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس کے ''ہاتھ بجلی کے جھٹکوں سے زخمی ہوئے ہیں۔‘‘
اسرائیل میں طویل ترین قید کاٹنے والا فلسطینی بالآخر رہا
الکفارنہ نے بتایا کہ قیدیوں کی آنکھوں پر پٹی باندھی جاتی ہے اور پھر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے تاکہ انہیں ٹھکانے کا کبھی علم نہ ہو۔
الکفارنہ کا مزید کہنا تھا، ''میں نے 30 سے زائد قیدیوں کو دیکھا، جن کی ٹانگیں کٹی ہوئی تھیں، کچھ کی دونوں ٹانگیں غائب تھیں اور کچھ کی دونوں آنکھیں نہیں تھیں۔‘‘
اپریل میں اسرائیلی اخبار ہاریٹس نے اسرائیلی فوج کے ایک کیمپ میں ملازمت کرنے والے ایک ڈاکٹر کی طرف سے اسرائیلی وزارت دفاع کو لکھے گئے ایک خط کا حوالہ دیا تھا۔ اس میں لکھا گیا تھا، ''غزہ سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کی بیڑیوں کے اثرات کی وجہ سے ٹانگیں کاٹ دی گئی ہیں۔ وہ لنگوٹ میں رفع حاجت کرتے ہیں۔ یہ طبی اخلاقیات اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
مئی میں نیوز ایجنسی اے ایف پی نے رہائی کے بعد غزہ کے الاقصیٰ شہداء ہسپتال میں آنے والے قیدیوں سے انٹرویوز کیے، جہاں موسیٰ یوسف منصور نے بتایا تھا، ''ہم دو گھنٹے سوتے رہے، پھر وہ کتے لائے اور رات کو ہم پر چھوڑ دیا۔ منصور نے اپنے بازوؤں پر نشانات دکھاتے ہوئے کہا، جو اس کے بقول کتے کے کاٹنے کے تھے، ''کچھ نوجوان حد سے زیادہ مار پیٹ اور کتوں کے حملوں کی وجہ سے مر گئے۔‘‘
اقوام متحدہ نے قیدیوں کے ساتھ اسرائیل کے سلوک کو ''ناقابل قبول‘‘ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر کی ترجمان روینہ شامداسانی نے اے ایف پی کو بتایا، ''ہمیں تشدد، بدسلوکی، ہتھکڑیاں لگانے، خوراک سے محروم رکھنے اور قیدیوں کے ادویات اور پانی سے محروم رکھنے جانے کی رپورٹیں موصول ہوئی ہیں اور یہ انتہائی تشویش ناک رپورٹیں ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم نے یہ معاملہ براہ راست اسرائیلی حکام کے ساتھ اٹھایا ہے اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘
مئی میں اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ وہ امریکی میڈیا کی اس رپورٹ کو ''مکمل طور پر مسترد‘‘ کرتی ہے، جس میں زیر حراست کچھ افراد نے دوران تفتیش انہیں برہنہ کیے جانے، جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے اور بجلی کے جھٹکے لگائے جانے جیسے الزامات عائد کیے تھے۔
اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ 36 اموات ہوئی ہیں۔ تاہم فوج کا کہنا ہے ہلاک ہونے والے قیدی بیمار تھے یا جنگ میں زخمی ہوئے تھے۔
ا ا / م م، ر ب (اے ایف پی، اے پی)