1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریاستی اداروں پر’تنقید‘ کی پاداش،صحافی رضوان رضی بھی گرفتار

9 فروری 2019

آج پاکستان کے ایک سینیئر صحافی رضوان رضی کو ان کے گھر کے باہر  سے کچھ نا معلوم افراد اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ کئی گھنٹے گزرنے کے بعد وفاقی تفتیشی ایجنسی ’ایف آئی اے‘ نے رضوان رضی کو حراست میں لیے جانے کا اعتراف کر لیا ہے۔

Rizwan Razi
تصویر: privat

آج سہ پہر کے بعد ایف آئی اے حکام کی طرف سے ذرائع ابلاغ کو بتایا گیا کہ رضوان رضی کے خلاف دفاعی اور ریاستی اداروں کے خلاف ٹویٹس کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے اور انہیں اگلے چوبیس گھنٹوں میں قانون کے مطابق عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق رضوان رضی کے خلاف متنازعہ ٹویٹ کرنے کے الزام میں پہلے بھی کارروائی کی گئی تھی، جس پر انہوں نے کچھ عرصہ پہلے ندامت کا اظہار بھی کیا تھا۔

تازہ کارروائی میں رضوان رضی کے خلاف مقامی وقت کے مطابق شام چار بج کر 15 منٹ پر درج کی جانے والی نئی ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر لاہور کو ریاستی اداروں کی طرف سے شکایت ملی تھی۔

میرے والد کو پچھلے کچھ عرصے سے کافی پریشان کیا جا رہا تھا، اسامہتصویر: DW/T. Shehzad

اس سے پہلے رضوان رضی کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ان کے بیٹے اسامہ رضی نے ٹویٹ کی تھی کہ ان کے والد کو نامعلوم افراد گھر سے دھکے دیتے ہوئے کالے شیشوں والی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے تھے۔ دوسری ٹویٹ میں محلے کے چوکیدار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ رضوان رضی کو اپنے ساتھ لے جانے والوں نے کچھ دور جا کر انہیں رینجرز کی گاڑی میں منتقل کر دیا تھا۔

رضوان رضی کے اس واقعے کے بعد جب میڈیا کے لوگ رضوان رضی کے گھر پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ گھر میں ان کی بیمار اہلیہ (جو ٹانگ کے فریکچر کی وجہ سے چل نہیں سکتیں) اور ان کا ایک بیٹا موجود ہیں۔ رضوان رضی کے گھر کے باہر سادہ کپڑوں میں لوگ بھی موجود تھے۔ ڈی ڈبلیو کے پوچھنے پر رضوان رضی کے بیٹے اسامہ نے بتایا کہ وہ ان لوگوں کو نہیں جانتے۔ ان کے خیال میں یہ لوگ "وہ" ہو سکتے ہیں۔ اسامہ نے مزید بتایا کہ جب ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے انہوں نے رینجرز کا ذکر کیا تو سادہ پوش لوگوں میں سے ایک نے انہیں کہا کہ رینجرز کا ذکر نہیں کرنا۔

اسامہ رضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے والد کو پچھلے کچھ عرصے سے کافی پریشان کیا جا رہا تھا۔ ایک مرتبہ نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی کو ٹکر مار کر فون کیا اور کہا " ہن آرام ایں"(یعنی کیا تمہیں اب آرام آیا ہے یا نہیں)۔ اسامہ کے بقول رضی کو لے جانے والوں نے دروازے کو زور زور سے پیٹا اور غیر شائستہ زبان استعمال کی۔ انہوں نے وارنٹ دکھائے اور نہ ہی گرفتاری کی کوئی وجہ بیان کی۔

تصویر: DW/T. Shahzad

رضوان رضی سینئر صحافی ہیں۔ دن ٹی وی کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس سے پہلے وہ دی نیوز، ڈان ٹی وی، دی ڈیلی نیشن، اور ڈیلی بزنس ریکارڈر سمیت کئی صحافتی اداروں کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ ان کا ریڈیو پروگرام دادا پوتا شو بھی عوامی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ٹویٹر اور سوشل میڈیا پر ان کے تبصروں کو دلچسپی سے پڑھتی رہی ہے۔

رضوان رضی کے قریبی دوستوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بعض اوقات ان کی طرف سے حکومت کے خلاف سخت تنقیدی تبصرے سامنے آتے رہے ہیں۔ ان کے بقول کبھی کبھی وہ "گہرے پانیوں میں بھی اتر جاتے تھے" ۔ ان کے قریبی حلقوں کے بقول لگتا یوں ہے کہ دھرنا کیس کے حوالے سے سامنے آنے والے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں جو تبصرہ کیا تھا، وہی ان کی اس گرفتاری کی وجہ بنا ہے۔

لاہور پریس کلب سے ہفتے کی صبح جاری کیے جانے والے ایک مذمتی بیان میں رضوان رضی کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔ ہفتے کی سہ پہر صحافتی تنظیموں نے اپنے مطالبات کے حق میں اور رضوان رضی کی گرفتاری کے خلاف پریس کلب کے باہر دھرنا دیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے صحافی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ رضوان رضی کو جس طرح گرفتار کیا گیا ہے اس سے پاکستانی صحافیوں کو ایک پیغام دیا گیا ہے۔ ان کے بقول اب ملک میں صحافیوں کی جان اور مال بھی محفوظ نہیں۔

صحافتی تنظیوں کے مطابق رضوان رضی کوئی دہشت گرد نہیں بلکہ ایک صحافی ہیں، ’’اگر ان کے خلاف کوئی الزام تھا تو بھی قانون کے مطابق ہی کارروائی کی جانی چاہیے تھی۔‘‘

اس موقع پر صحافیوں نے "غنڈہ گردی کی سرکار نہیں چلے گی نہیں چلے گی" اور "آزادی صحافت تک جنگ رہے جنگ رہے گی" کے نعرے بھی لگائے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری کا کہنا تھا کہ ایسے حالات پچھلے 70 سال میں بھی صحافیوں نے نہیں دیکھے، جس طرح کی پریشان کن  صورتحال کا آج کل پاکستان کی صحافت کو سامنا ہے۔ ان کے بقول یہ درست ہے کہ پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف نامناسب اظہار خیال کی حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن دوسری طرف جس طریقے سے رضوان رضی کو گرفتار کیا گیا ہے اس کو بھی برداشت نہیں یا جاسکتا۔

’ميڈيا پر غير اعلانيہ قدغنيں لگائی جا رہی ہيں‘

03:34

This browser does not support the video element.

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں