ریاستی وزیراعلیٰ کو کٹھ پتلی کہنے والا صحافی گرفتار
19 دسمبر 2018
بھارت میں ایک ریاستی وزیراعلیٰ کو وزیراعظم نریندر مودی کا کٹھ پتلی کہنے پر ایک صحافی کو گرفتار کر لیا ہے۔ صحافی کا تعلق ایک ٹیلی وژن چینل سے ہے اور اُسے نیشنل سکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
اشتہار
بھارت کی شمال مشرقی ریاست مَنی پور کے ایک ٹیلی وژن چینل سے منسلک صحافی کشور چندر وانگ کھیم کو اس لیے گرفتار کیا گیا ہے کہ اُس نے ریاستی وزیراعلیٰ این بیرن سنگھ کو وفاقی حکومت اور وزیراعظم نریندر مودی کا کٹھ پتلی قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے صحافی وانگ کھیم نے کئی ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر اپ لوڈ بھی کیے۔
گرفتار ہونے والے صحافی کے وکیل این وکٹر نے ٹیلی فون پر نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کی گرفتاری کی بنیاد کوئی نہیں اور یہ صرف حکومتی جبر ہے۔ وکٹر نے یہ بھی کہا کہ یہ حکومتی اختیار اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو قابل مذمت ہے۔ صحافی کی گرفتاری کے خلاف جو اپیل دائر کر دی گئی ہے۔ اس اپیل کی سماعت ججوں کا ایک پینل جمعرات بیس دسمبر کو کرے گا۔
وانگ کھیم کی اہلیہ رنجیتا ایلانگبام نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اُن کے شوہر کو ریاستی حکومت نے ملک کے منافی اقدامات کے تحت اکیس نومبر کو حراست میں لیا لیکن پچیس نومبر کو وہ ضمانت پر رہا کر دیے گئے۔ اس کے بعد ستائیس نومبر سے وہ دوبارہ گرفتاری کے بعد جیل میں ہیں۔ اس دفعہ انہیں نیشنل سکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اور اس کے تحت وہ بغیر عدالتی کارروائی کے ایک برس تک جیل میں مقید رکھے جا سکتے ہیں۔
بھارت میں مختلف صحافیوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے سوشل میڈیا پر قومی سلامتی کے تناظر میں سخت قوانین کے نفاذ پر تنقید کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے بھارتی ذرائع ابلاغ سے منسلک صحافی نئی دہلی میں مودی سرکار کے خلاف احتجاج کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
بھارت کو دنیا کے کثیر الجہت ذرائع ابلاغ کے حامل ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ میڈیا آزادی کے عالمی انڈیکس پر بھارت کی پوزیشن 138ویں ہے۔ یہ باعث حیرت ہے کہ بھارت کا ورلڈ پریس فریڈم میں مقام افریقی ملک زمبابوے سے بھی نیچے ہے۔ اس کی وجہ سینسر شپ کے مختلف مگر سخت قوانین اور گزشتہ برسوں میں کئی صحافیوں کا قتل ہے۔
صحافت: ایک خطرناک پیشہ
رواں برس کے دوران 73 صحافی اور میڈیا کارکنان قتل کیے گئے۔ یہ تمام جنگی اور تنازعات کے شکار علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران ہی ہلاک نہیں کیے گئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے صحافی برادری کو مختلف قسم کی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
وکٹوریہ مارینوا، بلغاریہ
تیس سالہ خاتون ٹی وی پریزینٹر وکٹوریہ مارینوا کو اکتوبر میں بلغاریہ کے شمالی شہر روسے میں بہیمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے یورپی یونین کے فنڈز میں مبینہ بدعنوانی کے ایک اسکینڈل پر تحقیقاتی صحافیوں کے ساتھ ایک پروگرام کیا تھا۔
تصویر: BGNES
جمال خاشقجی، سعودی عرب
ساٹھ سالہ سعودی صحافی جمال خاشقجی ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے لیکن باہر نہ نکلے۔ سعودی حکومت کے سخت ناقد خاشقجی اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔ وہ اپنی طلاق کے کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں قونصلیٹ گئے تھے جبکہ ان کی منگیتر باہر گیارہ گھنٹے انتظار کرتی رہیں لیکن خاشقجی باہر نہ آئے۔ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک خاشقجی نے کہا تھا کہ ریاض حکومت انہیں قتل کرانا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters/Middle East Monitor
یان کوسیاک اور مارٹینا کسنیروا، سلوواکیہ
تحقیقاتی صحافی یان کوسیاک اور ان کی پارٹنر مارٹینا کسنیروا کو فروری میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کا الزام ایک سابق پولیس اہلکار پر عائد کیا گیا۔ اس واردات پر سلوواکیہ بھر میں مظاہرے شروع ہوئے، جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونا پڑ گیا۔ کوسیاک حکومتی اہلکاروں اور اطالوی مافیا کے مابین مبینہ روابط پر تحقیقات کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Voijnovic
دافنہ کورانا گالیزیا، مالٹا
دافنہ کورانا گالیزیا تحقیقاتی جرنلسٹ تھیں، جنہوں نے وزیر اعظم جوزف مسکوت کے پانامہ پیپرز کے حوالے سے روابط پر تحقیقاتی صحافت کی تھی۔ وہ اکتوبر سن دو ہزار سترہ میں ایک بم دھماکے میں ماری گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L.Klimkeit
وا لون اور چُو سو او، میانمار
وا لون اور چُو سو او نے دس مسلم روہنگیا افراد کو ہلاکت کو رپورٹ کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں دسمبر سن دو ہزار سترہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انتالیس عدالتی کارروائیوں اور دو سو پیسنٹھ دنوں کی حراست کے بعد ستمبر میں سات سات سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سن انیس سو تئیس کے ملکی سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Wang
ماریو گومیز، میکسیکو
افغانستان اور شام کے بعد صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک میکسیکو ہے۔ اس ملک میں سن دو ہزار سترہ کے دوران چودہ صحافی ہلاک کیے گئے جبکہ سن دو ہزار اٹھارہ میں دس صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 35 سالہ ماریو گومیز کو ستمبر میں ان کے گھر پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حکومتی اہلکاروں میں بدعنوانی کی تحقیقات پر انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
سمین فرامارز اور رمیز احمدی، افغانستان
ٹی وی نیوز رپورٹر سیمین فرامارز اور ان کے کیمرہ مین رمیز احمد ستمبر میں رپورٹنگ کے دوران کابل میں ہوئے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ افغانستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو، برازیل
برازیل میں بدعنوانی کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ ریڈیو سے وابستہ تحقیقتاتی صحافی مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو حکومتی اہلکاروں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے تھے۔ انہیں اگست میں چار مسلح حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Sa
شجاعت بخاری، کشمیر
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں فعال معروف مقامی صحافی شجاعت بخاری کو جون میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بخاری کو دن دیہاڑے سری نگر میں واقع ان کے دفتر کے باہر ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے بھی منسلک رہ چکے تھے۔
تصویر: twitter.com/bukharishujaat
دی کپیٹل، میری لینڈ، امریکا
ایک مسلح شخص نے دی کپیٹل کے دفتر کے باہر شیشے کے دروازے سے فائرنگ کر کے اس ادارے سے وابستہ ایڈیٹر وینڈی ونٹرز ان کے نائب رابرٹ ہائیسن، رائٹر گیرالڈ فشمان، رپورٹر جان مک مارا اور سیلز اسسٹنٹ ریبیکا سمتھ کو ہلاک کر دیا تھا۔ حملہ آور نے اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا تھا، جو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔