'خالصتانی ریاست کا خواب جرم نہیں، فخر کی بات ہے' امرت پال
صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
8 جولائی 2024
نو منتخب رکن پارلیمان اور خالصتان نواز رہنما امرت پال کی والدہ نے کہا تھا کہ ان کا بیٹے علیحدہ ریاست خالصتان کے حامی نہیں ہیں، اس لیے انہیں رہا کر دیا جانا چاہیے۔ لیکن امرت پال سنگھ نے اپنی ماں کے بیان کو مسترد کر دیا۔
اشتہار
بھارتی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسند رہنما امرت سنگھ پال نے بھارتی پارلیمان کی رکنیت کا حلف لینے کے ایک دن بعد ہی علیحدہ ریاست خالصتان کے مطالبے کی حمایت کی اور کہا کہ ایک ''خالصہ ریاست کا خواب دیکھنا کوئی جرم کی بات نہیں ہے۔''
امرت پال سنگھ انسداد دہشت گردی جیسے سخت قانون کے تحت گزشتہ ایک برسسے بھی زیادہ وقت سے ریاست آسام کی جیل میں قید ہیں، جنہیں پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے، حلف برداری کے لیے پیرول پر جمعے کے رو دہلی لایا گیا تھا۔ اسی دن دہلی کے تہاڑ جیل میں بند کشمیری رہنما انجنیئر شیخ رشید نے بھی حلف اٹھایا تھا۔
امرت پال سنگھ نے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں صوبہ پنجاب کے کھڈور صاحب حلقے سے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ انجنیئر رشید، جنہیں بھارتی حکومت نے سن 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے ہی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کر رکھا ہے، بھارتی کشمیر کے بارہمولہ حلقے سے کامیاب ہوئے تھے۔ دونوں کو حلف برداری کے لیے جیل سے پیرول پر رہا کیا گیا تھا۔
امرت پال سنگھ نے کیا کہا؟
علیحدگی پسند رہنما امرت پال سنگھ کی والدہ نے چند روز قبل اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا بیٹا بھارت سے علیحدہ ریاست خالصتان کا حامی نہیں ہے اور انہوں نے بیٹے کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
امرت پال سنگھ نے اپنی والدہ کے اس بیان پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ علیحدہ ریاست خالصتان کا خواب دیکھنا ''کوئی جرم نہیں بلکہ فخر'' کی بات ہے۔
سوشل میڈیا ایکس پر ان کی ٹیم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''کل جب مجھے والدہ کے بیان کا علم ہوا تو دل بہت اداس ہو گیا۔ مجھے یقین ہے کہ میری والدہ نے یہ بیان غیر ارادی طور پر دیا ہو گا۔ تاہم پھر بھی ایسا بیان میرے خاندان یا کسی بھی ایسے شخص کی طرف سے نہیں آنا چاہیے، جو میری حمایت کرتا ہو۔''
انہوں نے مزید کہا کہ ''خالصہ ریاست کا خواب دیکھنا کوئی جرم نہیں ہے۔ یہ فخر کی بات ہے۔ ہم اس راستے سے پیچھے ہٹنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے، جس کے لیے لاکھوں سکھوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔''
اشتہار
امرت پال کی قید کی وجوہات کیا ہیں؟
امرت پال سنگھ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ قومی سلامتی ایکٹ کے تحت آسام کی ڈبرو گڑھ جیل میں قید ہیں۔ آسام سے دہلی اور پھر جیل تک واپسی کے سفر کے پیش نظر انہیں پانچ جولائی سے چار دن کی حراستی پیرول دی گئی تھی۔
امرت پال سنگھ معروف سابق خالصتانی رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کی اسٹائل میں رہنے کے لیے معروف تھے اور اکثر سکھوں کے حقوق کی بات کیا کرتے تھے۔ گزشتہ برس ریاست پنجاب کی پولیس نے ان کے خلاف متعدد کیسز درج کیے اور ایک ماہ سے زیادہ عرصے کی تلاش کے بعد گزشتہ سال 23 اپریل کو انہیں موگا کے ایک گاؤں سے گرفتار کیا گیا تھا۔
گزشتہ برس اجنالہ میں پیش آنے والے ایک واقعے کے بعد ان کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔ اس واقعے میں امرت پال سنگھ اور ان کے حامی رکاوٹیں توڑ کر امرتسر کے مضافات میں واقع تھانے میں داخل ہوگئے، جس میں پولیس کے ساتھ جھڑپ بھی ہوئی تاہم انہوں نے اپنے ایک معاون ساتھی لوپریت سنگھ طوفان کو رہا کر وا لیا تھا۔
بھارتی حکومت نے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بدامنی پھیلانے، قتل کی کوشش، پولیس اہلکاروں پر حملہ اور سرکاری ملازمین کے فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹیں پیدا کرنے سے جیسے متعدد فوجداری مقدمات کے تحت کیسز درج کر رکھا ہے۔
گولڈن ٹیمپل پر حملے کے تیس سال
سکھوں کے لیے ’خالصتان‘ کے نام سے ایک الگ وطن کے قیام کی تحریک کو ٹھیک تیس سال پہلے بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے کچل دیا گیا تھا۔ چھ جون 1984ء کو ہونے والی اس کارروائی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images
سکھوں کا مقدس ترین مقام
بھارتی شہر امرتسر میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس ترین مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ واقع ہے۔ چھ جون کو اس عبادت گاہ پر حملے کے تیس برس مکمل ہو گئے۔ چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج نے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے دوران اس عبادت گاہ میں گھس کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کی تیس ویں برسی کے موقع پر بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگائے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔
تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images
تیس سالہ تقریب میں کرپانیں اور تلواریں
چھ جون 2014ء کو گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے دو گروپوں کے درمیان تصادم میں دونوں جانب سے تلواریں اور کرپانیں نکل آئیں اور کچھ لوگ زخمی ہو گئے۔ 1984ء کے فوجی آپریشن کے تیس برس مکمل ہونے پر یادگاری تقریب کے دوران سکھ مذہب کی ایک سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل کے حامیوں نے معمولی اختلاف کے بعد آزاد ریاست کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے، جنہیں بعد ازاں سکیورٹی گارڈز نے گوردوارے سے نکال دیا۔
تصویر: UNI
سکھ نوجوانوں کی بدلتی ترجیحات
گولڈن ٹیمپل پر حملے کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے لیکن نوّے کی دہائی میں ’’خالصتان‘‘ کے لیے شروع ہونے والی تحریک اب ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ایک آزاد سکھ ریاست کے مخالف سُکھدیو سندھو کہتے ہیں:’’اب پنجاب کے لوگ 1984ء کے حالات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ تب یہ تحریک اس وجہ سے کامیاب ہوئی تھی کہ نوجوان اس میں شامل تھے۔ ان نوجوانوں کی ترجحیات بدل چکی ہیں۔ وہ بندوقوں کی بجائے روزگار چاہتے ہیں۔‘‘
تصویر: N. Nanu/AFP/Getty Images
سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے
80ء کے عشرے میں سکھ علیحدگی پسندوں کی قیادت سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے نے کی، جو چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج کے آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف سینتیس سال تھی۔
تصویر: picture alliance/AP Images
جب فوجی بوٹوں سمیت اندر گھُس گئے
امرتسر میں چھ جون 1984ء کو کیے جانے والے فوجی آپریشن میں تقریباً 500 افراد مارے گئے تھے۔ یہ آپریشن وہاں موجود سکھ علیحدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا، جو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت بھارتی فوجی سکھوں کے اس مقدس ترین مقام میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے۔ اس دوران ٹیمپل کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اندرا گاندھی اپنےسکھ محافظ کے انتقام کا نشانہ
گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن کے کچھ ہی عرصے بعد اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے اپنے ہی محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھ گروپوں کے مطابق یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ہزاروں سکھ بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
بھنڈراں والے کی یادیں اب بھی تازہ
یہ تصویر 2009ء کی ہے، جب گولڈن ٹیمپل پر حملے کو پچیس برس مکمل ہوئے تھے۔ سکھ علیحدگی پسند اب بھی ہر سال چھ جون کو گولڈن ٹیمپل پر جمع ہوتے ہیں اور خالصتان تحریک کی قیادت کرنے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کو یاد کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سکھ مذہب کے بانی گورو نانک
امرتسر کے مرکزی سکھ میوزیم میں آویزاں اس پینٹنگ میں سکھ مذہب کے بانی گورو نانک تلونڈی (موجودہ پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب) میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ گورو نانک کے ایک جانب اُن کے مسلمان ساتھی بھائی مردانہ اور دوسری جانب ہندو ساتھی بھائی بیلا کھڑے ہیں۔
امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل دنیا بھر کے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے، جہاں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ 2008ء کی اس تصویر میں پاکستان، بھارت اور دنیا بھر سے گئے ہوئے سکھ اپنے پہلے سکھ گورو گورو نانک دیو کی 539 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شریک ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک آباد سکھوں میں تحریک اب بھی زندہ
نیویارک میں سکھ علیحدگی پسندوں کے اجتماع کا ایک منظر۔ سکھوں کی آزادی کی تحریک اور اُن کے لیے ایک الگ وطن ’’خالصتان‘‘ کی حمایت کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔
تصویر: AP
سنگ بنیاد حضرت میاں میر نے رکھا
امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد سکھ رہنما گورو ارجن صاحب کی خصوصی خواہش کے احترام میں لاہور سے خصوصی طور پر جانے والے ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر نے سولہویں صدی میں رکھی تھی۔ یہ سنہری عبادت گاہ ایک خوبصورت تالاب میں تعمیر کی گئی ہے، جسے سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد دیکھنے کے لیے جاتی ہے۔ سکھ اپنی اس عبادت گاہ کو مذہبی رواداری، محبت اور امن کی علامت گردانتے ہیں۔