فرانسیسی پولیس نے ایک ریفریجیریٹر ٹرک میں چھپائے گئے چھبیس تارکین وطن کو چیکنگ پر برآمد کیا۔ ان میں ایک دو سال کا بچہ بھی شامل ہے۔ یہ تمام لوگ برطانیہ جانے کی کوشش میں تھے۔
اشتہار
فرانسیسی بندرگاہ ڈنکرک سے سامان بردار ٹرک اور کاریں بڑی بڑی فیریز یا کشتیوں پر لاد کر برطانیہ لے جائے جاتے ہیں۔ ہفتہ انتیس جولائی کو ڈنکرک کی بندرگاہ سے ایک ریفریجیریٹر ٹرک کی جب معمول کی چیکنگ کی گئی تو اُس میں سامان کے ساتھ چھپائے گئے چھبیس مہاجرین بھی برآمد ہو گئے۔
ان مہاجرین کو انتہائی ٹھنڈے اندرونی ماحول سے جب باہر نکالا گیا تو اُن کی کی حالت غیر تھی۔ ان تارکین وطن میں ایک ایرانی خاتون اور اُس کی گود میں دو سالہ بچہ بھی شامل تھا۔
جب اس ایرانی عورت اور بچے کو باہر نکالا گیا تو اُن کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ دو برس کے بچے کو شدید ہائپوتھرمیا لاحق ہو چکا تھا۔ ہائپوتھرمیا انسانی بدن کی اُس قدرتی حرارت میں کمی پیدا ہونے کو کہتے ہیں جو انتہائی ٹھنڈ کی صورت میں پیدا ہوتی ہے اور انجام کار موت کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔
ایمرجنسی سروس کے مطابق بچے کی حالت نازک ہونے کی وجہ سے اُسے فوری طور پر ڈنکرک کے ایک ہسپتال منتقل کر دیا گیا تاکہ اُسے ہنگامی طبی امداد فراہم کی جا سکے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ دو سالہ بچے کی حالت اب کیسی ہے۔
ایمرجنسی سروس کو چھبیس مہاجرین کی دستیابی کے بعد فوری طور پر طلب کیا گیا تھا تا کہ اُس میں شامل طبی عملہ تارکین وطن کا ابتدائی معائنہ کر کے طے کر سکیں کہ کوئی ہائپوتھرمیا کا شکار تو نہیں۔
مقامی سکیورٹی کے مطابق یہ تمام لوگ برطانیہ منتقل ہونے کی کوشش میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ پر ایک ایسے ٹرک میں سوار ہوئے جس کا اندرونی درجہٴ حرارت نقطہٴ انجماد سے کہیں کم ہوتا ہے۔
فرانسیسی حکام کے مطابق ان مہاجرین کا تعلق افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے ہے۔ یہ تمام تارکین وطن یورپ کے کئی مختلف ملکوں سے سفر کرتے ہوئے فرانس پہنچے تھے اور اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح وہ برطانیہ منتقل ہو سکیں۔
یورو ٹنل اور فیری کے ذریعے ایسے تارکین وطن کو برطانیہ پہنچانے کا سلسلہ، تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجود جاری ہے۔
بلغراد میں پرانی بیرکیں، جو پاکستانی مہاجرین کا گھر بنیں
برطانوی فوٹو گرافر ایڈورڈ کرا فورڈ نے کئی ماہ تک سربیا کے کیمپوں میں وہاں قیام پذیر تارکین وطن کی روز مرہ زندگی کو عکس بند کیا۔ آئیے ڈالتے ہیں سربیا میں مہاجرین کی حالت زار پر ایک نظر کرا فورڈ کی ان تصاویر کے ذریعے۔
تصویر: Edward Crawford
امید کی کرن
بلغراد میں ان بیرکوں نے گزشتہ ماہ خالی کیے جانے سے قبل قریب بارہ سو مہاجرین کو پناہ دے رکھی تھی۔ کرا فورڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب میں وہاں اس بحران کی تصویری کَور یج کر رہا تھا، میں نے سینکڑوں پناہ گزینوں سے بات کی۔ تمام پناہ گزینوں کا ایک ہی مقصد تھا یورپ میں ایک بہتر زندگی کی تلاش۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
افغان اور پاکستانی مہاجرین کا گھر
یہ بیرکیں ایسے افغان اور پاکستانی مہاجرین کا گھر رہی ہیں جنہوں نے اپنے ممالک میں غربت اور دہشت گردی سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ کرافورڈ نے واضح کیا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورت حال اُس وقت زیادہ خراب ہوئی جب مغربی افواج واپس چلی گئیں اور طالبان نے ملک میں اُن کے حامیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
تصویر: Edward Crawford
ہمدردی کی تلاش
رواں برس کے آغاز میں یورپ میں داخل ہونے والے مہاجرین کو جس مشکل کا سب سے پہلے سامنا کرنا پڑا وہ شدید سردیاں اور پھر موسم بہار کی سرد ہوائیں تھیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی جانب سے ملے ان سرمئی کمبلوں نے سردی سے بچاؤ میں ان پناہ گزینوں کی مدد کی۔
تصویر: Edward Crawford
سرمئی کمبل
کرافورڈ نے کہا، ’’بیرکوں میں ہر طرف بے شمار کمبل دکھائی دیتے تھے۔ مہاجرین ان کے ڈھیر پر سوتے اور انہی کو گرم کوٹ کی طرح بھی استعمال کرتے تھے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے شخص کے لیے کمبل کا استعمال ناگزیر تھا۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
مہاجرت کے بحران کی علامت
یہ سرمئی کمبل جن کے بغیر مہاجرین کے لیے یورپ کی شدید کو برداشت کرنا شاید ممکن نہ ہو تا، نہ صرف مہاجرین کے بحران کی علامت بنے بلکہ ان تارکین وطن کی روز مرہ زندگی کا اہم جزو بھی بن گئے۔ اس تصویر میں ایک شخص پانی گرم کرتا اور ایک دوسرے مہاجر کے سر پر ڈالتا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسرا ہاتھ میں صابن جبکہ تیسرا بال خشک کرنے کی غرض سے کمبل ہاتھ میں لیے تیار کھڑا ہے۔
تصویر: Edward Crawford
چھوڑا ہوا کمبل
یوں تو مہاجرین سربیا میں جہاں کہیں جائیں، سرمئی کمبل اِن کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تاہم بعض اوقات یہ تارکین وطن اس لیے انہیں کسی جگہ چھوڑ جاتے ہیں تاکہ اُن کی چلنے کی رفتار متاثر نہ ہو۔ کرافورڈ نے بتایا کہ اس کمبل کا مالک اسے ٹرین میں چھلانگ لگاتے وقت ریلوے ٹریک پر چھوڑ گیا تھا۔
تصویر: Edward Crawford
ہیلو امی، میں خیریت سے ہوں
سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یورپ آنے والے چالیس فیصد مہاجرین بچے اور نو عمر افراد ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والا ایک نوجوان مہاجر ہے جو اپنی ماں کو فون پر اپنی خیریت کی اطلاع دے رہا ہے۔
تصویر: Edward Crawford
بہتر صورت حال
کرافورڈ کے بقول اگرچہ بیرکوں میں گنجائش سے زیادہ افراد تھے اور صفائی ستھرائی کی صورت حال بھی اچھی نہیں تھی، اس کے باوجود یہ سربیا کے دوسرے مہاجر کیمپوں کے مقابلے میں بہتر تھا۔
تصویر: Edward Crawford
یورپی یونین پر تنقید
کرافورڈ کے نزدیک اگرچہ صورت حال قدرے مستحکم ہے تاہم وہ بحران کے حوالے سے یورپی یونین کے رویے کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے،’’ سربیا کو کہیں زیادہ فنڈز ملنے چاہئیں تاکہ یہاں مہاجرین کے لیے بہتر ماحول میں کیمپ بنائے جا سکیں۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
رویے کی شکایت کے بجائے تعلیم
کرافورڈ کا کہنا ہے کہ یورپ میں قانونی طور پر مہاجرین کے داخلے کے لیے پناہ کی درخواستوں پر عمل درآمد کی رفتار کو تیز کیا جانا چاہیے۔ لیکن خود مہاجرین صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کریں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے۔ اُن کے رویے کی شکایت کرنے کے بجائے اُنہیں تعلیم دی جائے اور یہ بتایا جائے کہ یہاں کیا قابلِ قبول ہے اور کیا نہیں۔