پیر 28 اگست کو فرانسیسی دارالحکومت میں یورپ کو درپیش تارکینِ وطن کے بحران کے حوالے سے ایک سربراہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ اس اجلاس کے میزبان فرانسیسی صدر ہیں۔ اس سمٹ میں اُن کے علاوہ چھ ملکوں کے سربراہ شریک ہوں گے۔
اشتہار
پیرس میں پناہ گزینوں کے بحران پر منعقدہ سربراہ اجلاس میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل، ہسپانوی وزیراعظم ماریانو راخوئے اور اٹلی کے قائدِ حکومت پاؤلو جینٹیلونی خاص طور پر نمایاں ہیں۔ اس سمٹ میں شمالی افریقی ملک لیبیا میں قائم اقوام متحدہ کی یونٹی حکومت کے وزیراعظم فائزالسراج کے ہمراہ وسطی افریقی ملک چاڈ کے سربراہ مملکت ادریس دیبی اور مغربی افریقی ملک نائجر کے صدر محمدُو عیسُوفو بھی شریک ہو رہے ہیں۔
اس سات ملکی سمٹ میں خاص طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے افریقی ملکوں کے مہاجرین کی حوصلہ شکنی اور روک تھام کو موضوع بنایا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سمٹ میں اٹلی کو تارکین وطن کی آمد سے جن معاشی و معاشرتی پیچیدگیوں کا سامنا ہے، اُن کے حل کے لیے بھی گفتگو یقینی ہے۔
لیبیا کی حکومت نے اپنی سمندری حدود میں غیر ملکی بحری جہازوں کو کسی بھی قسم کی سرگرمی میں شریک ہونے سے روک دیا ہے۔ اس متنازعہ فیصلے کا خاص طور پر اٹلی نے خیرمقدم کیا ہے۔ روم حکومت کے مطابق لیبیا کی سمندری حدود میں امدادی تنظیموں کے بحری جہاز بظاہر ناکارہ کشتیوں میں سفر کرنے والے افریقی مہاجرین کی مدد کے لیے تعینات کیے گئے تھے لیکن حقیقت میں وہ انسانی اسمگلنگ میں بھی ملوث پائے گئے تھے۔
طرابلس حکومت کے اس فیصلے سے اٹلی کی مسرت اس لیے بھی عیاں ہے کہ وہ لیبیا کی سمندری حدود میں اپنے جنگی بحری جہازوں کو تعینات کر کے انسانی اسمگلروں کی کشتیوں کو روکنے کی براہ راست نگرانی کرے گا۔ دوسری جانب کئی غیرسرکاری تنظیموں نے فائز السراج کی حکومت کے اس فیصلے کو سخت اور انسانی حقوق کے منافی قرار دیا ہے۔
انٹرنینشل آرگنائزیشن برائے تارکین وطن کے مطابق رواں برس اب تک ایک لاکھ سے زائد پناہ گزین اٹلی کے ساحلی علاقوں پر قدم رکھ چکے ہیں۔ یہ تمام تارکین وطن لیبیا سے بحیرہ روم کا سفر کرتے ہوئے پہنچے ہیں۔
کابل کی شدید سردی، وطن لوٹنے والے مہاجرین مشکل میں
نارویجین ریفیوجی کونسل کے مطابق سن 2016 میں اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور پندرہ ہزار افغان شہریوں نے کابل میں رہائش اختیار کی۔ ان میں سے اکثر افغان خاندان انتہائی برے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
کابل میں پچاس سے زائد ایسی بستیاں قائم ہیں
تھنک ٹینک ’سیمیول ہال‘ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کابل میں پچاس سے زائد ایسی بستیاں قائم ہیں جہاں اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والے افغان شہری یا پاکستان اور دیگر ممالک سے واپس آنے والے افغان مہاجرین نے رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
پاکستان سے چھ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین افغانستان لوٹے
سن 2016 میں پاکستان سے چھ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین افغانستان لوٹے۔ عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن اور رضا کارانہ طور پر واپس جانے والے مہاجرین کو دی جانے والی رقم میں دوگنا اضافے کے باعث مہاجرین کی واپسی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: DW/F. U. Khan
انتہائی برے حالات
’سیمیول ہال‘ کے سروے کے مطابق کابل اور اس کے گرد و نواح میں قائم بستیوں میں اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والے افغان شہری یا پاکستان اور دیگر ممالک سے واپس آنے والے افغان مہاجرین انتہائی برے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اوسطاﹰ ہر خاندان کی ماہانہ آمدنی 6855 افغانی ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
سوکھی گھاس کا استعمال
کابل کی ایک بستی میں افغان خاندان برفانی سردی سے بچنے کے لیے سوکھی گھاس استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان سے افغانستان واپس آنے والے بہت سے خاندانوں کو خوراک، گرم کپڑوں اور مناسب رہائش کی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
شالے خان کا خاندان
ستر سالہ شالے خان 1980 کی دہائی میں افغانستان کو چھوڑ کر پاکستان چلے گئے تھے۔ ساڑھے تین ماہ قبل شالے خان اور ان کے پوتے پوتیاں پاکستان سے خالی ہاتھ افغانستان پہنچے تھے۔ نارویجین ریفیوجی کونسل نے شالے خان کے خاندان کے لیے ایک گھر تعمیر کیا ہے۔ اب کابل کی شدید سردی میں ان کے پاس رہائش کا مناسب انتظام ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
سردی نے مشکلات بڑھا دیں
ایک نوجوان لڑکا امدادی ادارے کی جانب سے دیے جانے والے پمپ کی مدد سے پانی نکال رہا ہے۔ آس پاس کئی افغان مہاجرین اور اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والے افغان شہری رہائش پذیر ہیں۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
گرم پانی کی کمی
افغانستان کے صوبے وردک سے نقل مکانی کرنے والی ایک افغان خاتون کابل کے نواح میں برف کے پانی سے کپڑے دھو رہی ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
کابل میں برف باری
اس ہفتے برف باری نے کابل شہر کو برف سے ڈھک دیا ہے۔ برف باری اور شدید ٹھنڈ نے افغان شہریوں کی مشکل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
مہاجرین بچے
اپنے وطن واپس پہنچنے والے یہ مہاجرین بچے برف میں کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ نارویجین ریفیوجی کونسل کی جانب سے ان بچوں کو کمبل، گرم لباس اور جوتے فراہم کیے گئے تھے۔ تاہم اس ادارے کا کہنا ہے کہ کابل میں اب بھی کئی خاندانوں کو سردی کے موسم کے لیے امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
مسکراتے چہرے
سات سالہ بی بی ہوا اور ایک سالہ شکریہ کیمرے کو دیکھ کر مسکرا رہی ہیں۔ بی بی ہوا کو سردی سے بچاؤ کے لیے مناسب خوراک اور لکٹری یا گیس کے ہیٹر کی ضرورت ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
خوراک کی کمی
پاکستان سے اپنے وطن لوٹنے والی ان افغان خواتین کا کہنا ہے کہ ان کو مناسب مقدار میں خوراک میسر نہیں ہے۔ یہ اور ان کے اہل خانہ دو وقت ہی کھانا کھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس نہ ہی کوئلہ ہے اور نہ ہی لکڑی اس لیے وہ آگ جلا کر اپنے بچوں کو سردی سے نہیں بچا سکتیں۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
شائمہ اور عائشہ
ایک سالہ شائمہ اور آٹھ سالہ بی بی عائشہ امدادی ادارے کی جانب سے تعمیر کیے گئے گھر کے باہر کھڑی ہیں۔ کئی دہائیوں تک پاکستان میں رہنے والا ان کا خاندان آٹھ ماہ قبل افغانستان پہنچا تھا۔