1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ریپ کرنے والا ہی ذمہ دار‘، عمران خان کی وضاحت کا خیر مقدم

عبدالستار، اسلام آباد
28 جولائی 2021

عمران خان کی طرف سے ریپ، پردے اور خواتین کے لباس کے حوالے سے دیے گئے اپنے ماضی کے متنازعہ بیانات کی وضاحت کو کئی حلقوں نے ایک ’مثبت تبدیلی‘ قرار دیا ہے تاہم کچھ کے بقول یہ وضاحت عوامی و بین الاقوامی ردعمل کا نتیجہ ہے۔

Pakistan Islamabad | Imran Khan, Premierminister
تصویر: Saiyna Bashir/REUTERS

عمران خان نے ایک امریکی ٹیلی ویژن چینل کو تازہ انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں زنا بالجبرکے ذمہ دار وہ افراد ہیں، جو اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس ظلم کا شکار ہونے والوں کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ عمران خان نے مزید کہا کہ پردے کے حوالے سے ان کے پرانے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا تھا۔

کچھ عرصے پہلے عمران خان نے اپنے ایک انٹرویو میں خواتین کے لباس اور بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا تھا، جس پر خواتین تنظیموں نے سخت ردعمل دیا تھا جب کہ سوشل میڈیا پر بھی اس بیان کی مذمت کی گئی تھی۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ عمران خان کا یہ بیان بہت مثبت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں نہیں سمجھتا کہ ان کا پہلے والے بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کیا گیا۔ تاہم انہوں نے اگر مظلوم کو مظلوم تسلیم کر لیا ہے تو یہ مثبت ہے کیونکہ ان کے پہلے والے بیان سے مذہبی رجعت پسندوں کے حوصلے بلند ہو گئے تھے اور وہ زنا بالجبر کی شکار خواتین کو ہی اس زیادتی کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: جنسی جرائم پر سخت سزائیں:عمران خان کی تجویر پر تنقید

ایوب ملک کے بقول اب وزیر اعظم کی اس وضاحت کے بعد رجعت پسندوں کی حوصلہ شکنی ہو گی، ’’اور میرے خیال میں پولیس افسران سمیت باقی حکومت کے رہنما بھی ایسے بیانات سے اجتناب کریں گے، جس سے یہ تاثر جائے کہ ظلم کا شکار خاتون ہی زیادتی کی ذمہ دار ہے۔‘‘

پاکستانی خواتین کو کیوں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے؟

02:13

This browser does not support the video element.

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی تجزیہ نگار فوزیہ شاہد کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کا یہ بیان مثبت ہے لیکن حکومت کو اور بھی بہت سارے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے عورتوں کے خلاف منفی رویے کو قابو پایا جا سکے۔

فوزیہ شاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب منفی تاثرات حکومت میں بیٹھے ہوئے اہم مناصب پر فائز لوگ دیتے ہیں تو اس کا پورے معاشرے میں اثر ہوتا ہے جیسے کہ جنرل ضیاء کے دور میں حکومتی پالیسی یہ تھی کہ عورت دشمن رویہ اپنایا جائے۔ اس لیے عورتوں کے خلاف جرائم میں زبردست تیزی آئی۔ بالکل اسی طرح موجودہ حکومت کے دور میں بھی خواتین کے خلاف جرائم میں تیزی آئی ہے اور اس کی وجہ حکومت اور حکومتی وزراء کی طرف سے دیے جانے والے بیانات ہیں جو عورت مخالف ہیں۔ وزیر اعظم نے بھی اسی طرح کا بیان دیا تھا جس کا ان کے سیاسی پیروکار دفاع کر رہے تھے اور اس کی وجہ سے معاشرے میں بہت منفی تاثر گیا۔‘‘

فوزیہ شاہد کے بقول اب کیونکہ وزیراعظم نے اس بیان کی وضاحت کی اور کم از کم انہوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ زنا بالجبر کا مجرم وہی شخص  ہے جو یہ گھناؤنا جرم کرتا ہے، ’’لیکن اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کو اپنے وزراء مشیروں اور حکومتی ارکان کو اس بات کا پابند کرنا چاہیے کہ وہ جنسی جرائم کے حوالے سے کوئی ایسا بیان نہ دیں جس سے یہ تاثر جائے کہ زیادتی کا شکار ہونے والی عورت ہی اس کی ذمہ دار ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیے:ریپ جسمانی ہوس ہے یا طاقت کا اظہار؟‬

حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی انیس ہارون کا کہنا ہے کہ عمران خان نے یہ وضاحت عوامی ردعمل کی وجہ سے دی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "عمران خان کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ان کے لباس کے حوالے سے دیے گئے تاثرات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا درحقیقت عمران خان قدامت پسندانہ سوچ کے حامی ہیں اور ان کے نظریات بھی قدامت پسندانہ ہیں۔ اسی لیے انہوں نے لباس اور بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کے حوالے سے اس طرح کے تاثرات دیے تھے لیکن عوامی ردعمل کی وجہ سے اب انہوں نے کی وضاحت پیش کی ہے۔‘‘

 تحریک انصاف کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان کا کہنا ہے کہ عمران خان کسی دباؤ میں آکر کوئی بات نہیں کہتے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے بیان کو کچھ عناصر نے سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کیا اور اس کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تاکہ عمران خان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا سکے اور انہیں بد نام کیا جا سکے۔ اس منفی رد عمل کا جواب دینے کے لیے خان صاحب نے اپنے بیان کی وضاحت کی تاکہ جو عمران خان کے خلاف کام کر رہے ہیں وہ عوام کو گمراہ نہ کر سکی۔‘‘

'پاکستانی معاشرہ تیار ہے ڈھکے چھپے موضوعات پر گفتگو کرنے کو'

05:03

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں