ریپ کے بدلے ریپ، پولیس نے مقدمہ درج کر لیا
27 مارچ 2018پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ واقعہ پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں20 مارچ کو پیش آیا تھا۔ مقامی پولیس افسر نعیم یوسف نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’ایک شخص ایک سولہ سالہ لڑکی کا ریپ کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا، محلے کے سارے لوگ جمع ہو گئے تھے اور انہوں نے اس مرد کو قتل کرنے کا مطالبہ کیا۔‘‘
نعیم یوسف نے مزید بتایا کہ اس تنازعے کے خاتمے کی خاطر ریپ کرنے والے شخص کے خاندان نے متاثرہ لڑکی کے خاندان کو کہا کہ اس ’جرم‘ کے بدلے ان کے خاندان کی کسی بھی عورت کا ریپ کر لیا جائے۔ تب ایک ڈیل کے تحت انہوں نے ایک چالیس سالہ عورت کو چنا، جسے متاثرہ لڑکی کے بھائی نے ریپ کیا۔
پولیس افسر نعیم کے مطابق،’’اس واقعے کے بعد دونوں خاندانوں نے ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے۔ اس معاہدے میں لکھا گیا تھا کہ معاملہ طے پا گیا ہے اور اب وہ یہ واقعہ بھول جائیں گے اور مزید دشمنی یا ایک دوسرے سے بدلہ نہیں لیں گے۔‘‘
مقامی پولیس اسٹیشن کے سربراہ عبدالمجید کا کہنا ہے کہ پولیس کو اس معاہدے کی نقل موصول ہونے کے بعد دونوں خاندانوں کے کل دس افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔
اس واقعے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سماجی کارکن ثمر من اللہ نے کہا،’’ ہمارے معاشرے میں کہا جاتا کہ عورت کو بہت عزت دی جاتی ہے لیکن ہم ہر دوسرے دن ایسے غیر انسانی واقعات دیکھتے ہیں، اس وقت ’عزت‘ کہاں ہوتی ہے جب عورت کو ہی عزت اچھالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ریپ کے بدلے ریپ کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جبکہ عورت کو خاندانی جھگڑوں کا حل نکالنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار عورتوں کو کسی خاندانی لڑائی کے جرم میں بازار میں برہنہ پھرنا پڑتا ہے تو کبھی کبھار اپنے بھائی کے گناہ کی وجہ سے کسی مرد کے ہاتوں ریپ ہونا پڑتا ہے۔ سماجی ماہرین کی رائے میں پاکستان میں پیچیدہ عدالتی نظام پنچائتی نظام کو تقویت دیتا ہے، جہاں بہت سے فیصلے عورتوں کے خلاف سنائے جاتے ہیں۔