1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریپ کے بعد تصفیے کی کوششیں غیر قانونی، بھارتی سپریم کورٹ

عاطف بلوچ1 جولائی 2015

بھارتی سپریم کورٹ نے آبروریزی کے مقدمات کے حوالے سے ماتحت عدالتوں کی طرف سے مصالحت اور تصفیے کو فروغ دینے کی کوششوں کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔

تصویر: Reuters

بھارتی سپریم کورٹ کے مطابق جنسی زیادتی کے واقعات میں متاثرہ خواتین اور آبروریزی کرنے والے مجرموں کے مابین مصالحت کی کوشش نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ یہ خواتین کی عزت کے بھی خلاف ہے۔ آج بدھ یکم جولائی کے روز بھارتی سپریم کورٹ کے جج دیپک مشرا نے کہا، ’’ایسے کیسوں میں تصفیے کی کوشش دراصل ماتحت عدالتوں کی طرف سے ایک بڑی غلطی ہے۔‘‘

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بھارتی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے یہ واضح موقف ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب مدراس ہائی کورٹ نے جنسی زیادتی کے ایک مقدمے کو ایک ’مصالحتی مرکز‘ میں منتقل کر دیا۔ بھارت میں سول تنازعات کے حل کے لیے کئی ایسے سینٹرز بنائے گئے ہیں، جہاں باقاعدہ عدالتی کارروائی کے بغیر ہی چھوٹے موٹے تنازعات کے فوری اور آسان حل کی کوشش کی جاتی ہے۔

مدراس ہائی کورٹ کے جج ڈی دیوداس نے آبروریزی کے اس کیس کو مصالحتی سینٹر منتقل کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ مجرم کے اچھے مستقبل کی خاطر متاثرہ خاتون کو تصفیہ کر لینا چاہیے۔ انہوں نے اس مجرم کی ضمانت بھی قبول کر لی تھی، جس نے ابھی سات برس کی سزائے قید بھی مکمل نہیں کی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ اس مجرم کو مصالحتی سینٹر سے رجوع کرنے کے لیے لازمی طور پر کم از کم سات سال کی قید کاٹنا تھی۔

جج دیوداس نے اسی طرح کا ایک اور مقدمہ بھی ایک مصالحتی مرکز منتقل کر دیا تھا، جس کا ان کے بقول ’خوشگوار نتیجہ‘ نکلا تھا۔ اس کیس میں مصالحتی مذاکرات کے نتیجے میں مجرم نے اُس خاتون سے شادی کر لی تھی، جسے اُس نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ تاہم اس تازہ کیس میں خاتون مصالحت سے انکاری ہے۔

شادی نہیں کروں گی، متاثرہ خاتون

سن 2008ء میں جب مجرم نے اس خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا تو اس وقت اس کی عمر چودہ برس تھی۔ بھارتی اخبار ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے اس خاتون نے کہا کہ وہ مجرم کے ساتھ نہ تو مصالحت چاہتی ہے اور نہ ہی اس سے شادی کرنا چاہتی ہے، ’’کیا یہ حکم غلط نہیں؟ مری رائے لیے بغیر ہی مجھے کہا جا رہا ہے کہ میں اپنی عزت نفس ایک ایسے شخص کے سامنے رکھ دوں، جس نے مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ میں ایسے شخص کے ساتھ زندگی کیسے گزار سکتی ہوں؟‘‘

سن 2013ء میں بھارت میں آبروریزی کے 33 ہزار سات سو سات واقعات رپورٹ ہوئےتصویر: Getty Images/N. Seelam

سات برس قبل جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی اس خاتون کی عمر اب اکیس برس ہے۔ آبروریزی کی وجہ سے ایک بیٹی کی ماں بن جانے والی یہ بھارتی خاتون اپنی اور اپنی بیٹی کی گزر اوقات کے لیے چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتی ہے۔ اس کے بقول جب کوئی پرسان حال نہیں تھا تو اس نے مزدوری بھی کی، ’’جب میری بیٹی بڑی ہو جائے گی تو میں اسے بتاؤں گی کہ اس کا باپ ایک ریپسٹ تھا۔‘‘

سپریم کورٹ کے جج دیپک مشرا کے مطابق کسی ماتحت عدالت کی طرف سے آبروریزی کے کسی کیس کو مصالحتی سینٹر منتقل کرنے کی تجویز بھی مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے یہ فیصلہ مدھیہ پردیش میں آبروریزی کے ایک مقدمے میں ایک اپیل کی سماعت کے دوران سنایا گیا۔ اس کیس میں بھی اس مقدمے کو کسی مصالحتی سینٹر میں منتقل کر دینے کی اپیل کی گئی تھی۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سن 2013ء میں بھارت میں آبروریزی کے 33 ہزار سات سو سات واقعات رپورٹ ہوئے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق حقیقت میں ایسے جرائم کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے کیونکہ بہت سے کیس رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں